• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ پنجاب،ڈرامائی سیاسی صورتحالپنجاب کی سیاسی صورتحال اس وقت انتہائی گھمبیر ہوگئی ہے۔ سب سے پہلے اس کے وزیر اعلی کا معاملہ اٹھا اس کے بعد کابینہ میں تاخیر ہوئی اور اب تاریخ میں پہلی بار دو بجٹ اجلاس ہوئے۔ یہ دو بجٹ اجلاس الگ الگ جگہ پر ہوئے اور صورتحال انتہائی ڈرامائی تھی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بجٹ اجلاس الگ جگہ پیش ہورہا ہے اور منظور بھی ہوگا۔ لیکن کچھ آئینی اور سیاسی معاملات پھر گھمبیر ہیں اورنوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ٹھن چکی ہے اور کوئی بھی مفاہمت کاراستہ اختیار کرنا نہیں چاہتا ہے۔ 

پاکستان کے صوبہ پنجاب کا مالی بجٹ بالآخر ایک ڈرامائی سیاسی صورتحال کے بعد ایوان اقبال لاہور کو اسمبلی ہال قرار دے کر پیش کیاگیا۔ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے نہ آنے پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے بجٹ اجلاس کی صدارت کی، سیکریٹری قانون پنجاب نے سیکریٹری اسمبلی کے فرائض سرانجام دیے تھے۔

اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے بھی پنجاب اسمبلی میں اجلاس طلب کر رکھا تھا جس میں اپوزیشن کے 110 ممبران نے شرکت کی تھی جبکہ اس اجلاس کے ذریعے گورنر پنجاب کی جانب سے جاری کیے جانے تین آرڈیننس ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایوان اقبال میں ہونے والا پنجاب اسمبلی کا 41 واں اجلاس گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے صوبائی کابینہ کی سفارش پر طلب کیا تھا۔ اس سفارش میں کابینہ نے کہا تھا اسپیکر اسمبلی اور عملہ بجٹ پیش کرنے میں دو روز سے رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

اسپیکر پرویز الٰہی نے گورنر کی طرف سے 40 ویں اجلاس کو ختم کرنے کی اطلاعات کے بعد رات گئے خود بھی اجلاس ختم کردیا تھا 41 واں اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیا تھا۔ یوں ایک ہی روز میں پنجاب اسمبلی کے دو اجلاس مختلف جگہوں پر ہوئے تاہم گورنر کا بلایا ہوا اجلاس صرف بجٹ پیش کر نے کے لیے تھا جس میں حکومت نے اپوزیشن کے بغیر ہی بجٹ پیش کیا گیا۔ آئینی ماہرین کے مطابق پنجاب میں پہلے سے جاری سیاسی بحران میں ان اقدامات سے مزید پیچیدگی آئی ہے کیونکہ کوئی بھی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

اس وقت پنجاب اسمبلی کی آئینی اور قانونی حیثیت دوبارہ 2018 پر کھڑی ہے۔ گورنر کے آرڈیننس کو اپوزیشن کے لوگ جمع ہو کر ختم نہیں کر سکتے چاہے وہ اسمبلی کی عمارت میں ہی جمع کیوں نہ ہو جائیں۔ گورنر پنجاب کی جانب سے اجلاس بلائے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے اجلاس شروع کرایا اور ساتھ ہی اجلاس ملتوی بھی کر دیاتھا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسمبلی اجلاس شروع کرنے کے لیے طویل مذاکرات کا دور بھی ہواتھا تاہم اپوزیشن کی جانب سے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کو اجلاس میں طلب کیے جانے کی ڈیمانڈ واپس نہ لینے پر یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف میں کئی دن سے جاری تناؤ کی وجہ سے پنجاب کا بجٹ اجلاس تاخیر اور ہنگامہ آرائی کی نذر ہو رہا تھا لیکن تقریباً 48 گھنٹے کے بعد آخر کار پنجاب کا بجٹ پیش کیا گیا۔ پہلے یہ خبریں بھی سامنے آئیں حکومت اور اپوزیشن بجٹ اجلاس کے حوالے سے کسی مثبت نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کی جانب سے وزیر اعلی کے انتخاب کے دوران اسمبلی میں پولیس کے داخلے پر آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری سے معافی کا مطالبہ رکھا گیا تھا جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک پیدا ہو اتھا اور معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا۔

اہم ترین پیشرفت یہ ہوئی کہ ان دونوں اجلاسوں سے پہلے پنجاب حکومت نے اسپیکر اور سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے اختیارات محدود اور معطل کرتے ہوئے اسمبلی کے انتظامی امور وزارت قانون کے حوالے کر دیے ہیں، اب پنجاب اسمبلی وزارت قانون کے ماتحت ہوگئی ہےاور اسمبلی کا عملہ اسپیکر یا سیکرٹری اسمبلی کی بجائے وزارت قانون کو جوابدہ ہو گا۔

اس طرح سے اسپیکر کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے جب الیکشن منعقد کرایا تو اس دوران پولیس کی بھاری نفری کو ایوان کے اندر بلایا گیا تھا، اپوزیشن پولیس کو ایوان میں بلانے پر آئی جی سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے۔

تاہم حکومت اس پر اڑی رہی کہ اپوزیشن کی شرط کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ان تمام مسائل کا حل  ضد اور انا نہیں ہے بلکہ حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ مل کر چلنے سے ہی مسائل حل ہوں گے اور صوبہ پنجاب ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے اس وجہ سے کاپیوں اور کتابوں کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اورغربا کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اس مہنگائی کی لہر میں اب تعلیم بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔

لہذا ہمیں اپنے ملک کے مستقبل کومحفوظ کرنے کے لئے حکام بالا کواس سنجیدہ مسئلے کی طرف سوچنا ہوگا۔ پاکستان میں غربت دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ غربت کی وجہ سے غذائی قلت جنم لیتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ غذائی قلت کا مسئلہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان ایک طرف تو زرعی ملک ہے جہاں سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرون ملک برآمد کیے جاتے ہیں۔ 

مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود پاکستان ان ممالک کی فہرست میں سب سے آگے ہے، جہاں غذائی قلت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اس بارے میں سوچنے کی  ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہےصرف بھاشن ہیں میرے سب وعدے جیت کر سب میں بھول جاتا ہوں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید