ایمن علی
دنیا کے تمام ممالک ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر، شرح تعلیم میں پاکستان سےآگے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان کیا کرہے ہیں وہ فخر سے بیٹھ کر ویڈیو گیمز کھیل رہے ہیں یا ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہیں کیا یہی ان کی زندگی کو نصب العین ہے؟
کیا اس ملک بنانے والوں کا خون ضائع گیا، کیا ان ماؤوں کی قربانیاں رائیگاں ہوگئیں جنہوں نے آزادی کے لئے اپنی اولاد کو شہیدہوتے دیکھا اس آس میں کہ آنے والی نسلیں آزاد اسلامی ریاست میں سکھ چین سےاپنے دین ومذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں گی، کیا ان کی آہیں فضا میں کہیں گم ہوگئیں ۔وہ نوجوان جواس امید میں سولیوں پر بخوشی چڑھ گئے کہ آنے والی نوجوان نسل قوم کی حفاظت کرے گی۔
حقیقت ہے کہ اسلاف نے اپنے دور میں بہت کچھ کر کے دکھایا اور بے سروسامانی میں پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ کر اسےقائم و دائم رکھا- کیا اب نئی نسل پر فرض نہیں کہ اس پاکستان کی ترقی کے لئے تعمیری کام کریں؟ لیکن آج کے نوجوانوں کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ وہ قربانیاں، وہ کاوشیں سب ضائع ہوچکی ہیں، دنیوی تعلیم تو ایک طرف دینی تعلیم کو بھی بھلا دیا، جس کے نام پر یہ ملک بنا تھا۔مغربی تہذیب ظاہری چمک دمک سے مرعوب نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ صرف مادی ترقی کی طرف لے جاتی ہے،جبکہ اسلامی تہذیب اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ایک پائیدار روحانی ترقی اور انسانی بھلائی کے دروازے کھولتی ہیں۔
ہمارے نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ذہنوں پر قفل لگائے ہوئے ہیں ان کو کھولنے کی ضرورت ہے، آج ملک و قوم کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے نوجوانوں کوآگے آنا ہوگا۔ پہلے توتعلیم حاصل کریں، تعلیمات دینیہ کو مضبوطی سے تھام لیں اپنے رب سےجڑجائیں، اپنے نبی کے نقش قدم پر چلیں اور محنت کریں انگلش سے لے کر تفسیر تک ہر مضمون میں محنت کریں، اس بات سے انکار نہیں کہ تعلیم میں بڑی طاقت ہے اگر انسان تعلیم یافتہ اور باشعور ہے تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن شرط ہے محنت ، اگر محنت کریں تو مٹی کو بھی سونا بناسکتے۔
اپنی سوچ کو وسعت دیں اچھا سوچیں یاد رکھیں اچھا سوچنے والوں کی ہمیشہ سے دنیا کو ضرورت رہی ہے وہ کبھی کسی کا غلام نہیں رہ سکتا۔ اپنے اسلاف کی طرف لوٹنا ہوگا، ان سے نسبت کو بحال کرنا ہوگا، اپنے دامن کو ان کے دامن سے باندھنا ہو گا، تب ہی اپنے ملک کی بقا کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں اگر آپ کو محنت کے باوجود نتیجہ نہیں مل رہا تو کوئی مسئلہ نہیں ، کیوں کہ نتیجہ سلسلہ وار مرحلہ وار ہی ملتا ہے ناکہ یک دم مل جاتا ہے بس جس کام کو کرنے کی ٹھان لیں اسے کرکے ہی دم لیں۔ ملک سے اپنے رشتے کو نہ بھولیں کہ اسی دھرتی نے ہمیں کچھ کرنے کے قابل بنایا ہے۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے جدید ٹیکنا لوجی کے ذریعہ اپنی تعلیم میں مزید سدھار کرسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اسے سہی جگہ استعمال کیا جائے۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ اس کے استعمال میں اعتدال برتیں اور بے جا استعمال نہ کریں، یہ چیزیں انسانی فوائد کے لئے ڈیزائن کی گئیں ہیں ناکہ ان کے نقصان کے لئے یہ چیزیں اگر آپ کے روشن مستقبل کی ضامن ہیں تو آپ کےحال کو برباد کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہیںاس لئے اس کا استعمال بہت احتیاط سے کریں اور اپنا وقت تصاویر شیئر کرنے اور منفرد ویڈیو اپلوڈ کرنے کے بجائے مختلف معلوماتی اور موٹیوشنل ویڈیوز دیکھنےمیں سرف کریں۔
یہاں ایک بات اور بھی غور طلب ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اخلاقی معیار کو بھی اعلیٰ بنایا جائے اور اپنی کردار سازی کی جائے اور سب سے بڑی بات مذہبی سوچ کو اپنایا جائے اور مغربی ذہنیت کا خاتمہ کیا جائے، کچھ نوجوان اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ترقی کی منازل طے کربھی لیں توان کا کردار مضبو ط نہیں ہوتا، ان کا اخلاقی معیار اعلیٰ نہیں ہوتا، آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کا کردار مضبوط نہ ہو اور اخلاق اعلیٰ نہ ہو تو کیا آپ ملک کے دیگر آنے والی نسل کی کردار سازی کرپائیں گے۔ تمام باتوں کا لب لباب یہی ہے کہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ڈالیں اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں اور قدم اٹھانے کے بعد پیچھے نہ ہٹیں اپنا پہلا قدم محنت کی جانب بڑھائیں اور ترقی کی منازل طے کرتے جائیں۔
قومی ترقی کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب طلباء اور نوجوان نسل اخلاص کے ساتھ اس مقصد کے لیے خود کو وقف کر دیں۔ اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ بن کر دکھائیں۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہے کہ واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو تاکہ نوجوان مایوسیوں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے، اپنی صلاحیتوں اور علم و فن کو بروئے کار لاکر مملکت خداداد پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ یہ کام حکومت ، والدین ، اساتذہ اور خود نوجوانوں، سب کو مل کر کرنا ہوگا۔