• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک اس وقت شدید مہنگائی کی لپیٹ  میں ہے گذشتہ چند ماہ میں مہنگائی میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے ،وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ انہوں نے انقلابی بجٹ پیش کیا ہے ، موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں ہو سکتا تھا ، وزیر اعظم شہباز شریف نے تو خوشخبری دی ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے مزید کوئی شرط نہ لگائی تو ان سے معاہدہ حتمی مراحل میں داخل ہو گیا ہے ۔ 

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 13 بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس لگانے سے اور پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشر با اضافے سے غریبوں پر اثر نہیں پڑے گا ، ابھی آئی ایم ایف نے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو ، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کی پاسداری کرنا پڑے گی۔

بجٹ میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے حکومت نے پہلے ا12 لاکھ روپے تک آمدنی میں ٹیکس کی چھوٹ دی تھی مگر اب آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق دوبارہ چھ لاکھ روپے آمدنی پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے حیرت اس بات پر ہے وزیر خزانہ پھر بھی کہتے ہیں غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ نہیں پڑے گا جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے عندیہ دیا ہے کہ سپر ٹیکس غربت کے خاتمے کیلئے استعمال کیاجائے گا۔ 

دوسری طرف یوٹیلیٹی سٹوروں پر بھی دالوں سمیت تمام اشیا ئے ضروری کی قیمتوں میں ہوشر با اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ عام مارکیٹوں پر تو اشیا ئے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں پہلے ایک تنخواہ دار ملازم یا متوسط طبقے کے کسی گھرانے کا ماہانہ کراسری 25 سے 30 ہزار روپے میں آتی تھی اب وہی گراسری 60 سے 70 ہزار روپے میں آتی ہے ،کاش وزیر خزانہ کسی دن خود اپنے گھر کا سودہ سلف خریدیں اور ایک دفعہ بیس بدل کر پٹرول پمپوں کا دورہ کریں اور عام لوگوں کے تااثرات سن لیں ،ایک طرف وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ بہترین بجٹ پیش کیا ہے۔ 

عمران خان تو ملک کو دیوالیہ کرنے کے قریب چھوڑ گئے ہیں ہم نے اپنی سیاست کو قربان کر کے ریاست کو بچالیا ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کے دو ر میں مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل گئی تھیں اب تو چیخیں بھی نہیں نکل رہی ہیں عمران خان کی کمر توڑ مہنگائی کے بعد عوام کی اس حکومت سے بہت توقعات تھیں کہ وہ ہمیں اچھا ریلیف دے گی، کیونکہ یہ لوگ اپوزیشن میں  تھے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں معمولی اضافے کو بھی ظلم قرار دیتے تھے اور مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور تحریکیں چلا رہے تھے مگر اقتدار میں آکر ایسی مہنگائی کی کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔ 

ڈالر 208 روپے کا ہو گیا جو 70 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا، پٹرول، ڈیزل کی اتنی قیمتیں کبھی نہیں  بڑھیں تھیں، لوگوں پر حقیقت میں نزع کا عالم ہے دیہاڑی دار مزدور کو کام نہیں مل رہا فاقہ کشی کا شکار ہے ، بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے لوگوں کیلئے اے ٹی ایم سے پیسے نکالنا مشکل ہو گیا ہے، لوٹنے والے تاڑ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ 

دوسری طرف سابق حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین تو ملک کی جو معاشی تصویر پیش کر رہےہیں وہ خوفناک ہے ،شوکت ترین کا کہنا ہے سپر ٹیکس سے صنعتیں بند ہو جائیں گی، معاشی حالات نہ سنبھالے گئے تو سری لنکا جیسے حالات ہونے کا شدید خطرہ ہے، اللہ پاک ہمارے ملک کو محفوظ رکھے، سابق حکومت کے معاشی ماہر اشفاق احمد بھی ملک کے معاشی حالات کو انتہائی خطر ناک قرار دے رہے ہیں ، زر مبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے کم ہو کر ساڑھے 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ 

حکومت کے مطابق چین کی طرف سے سوا دو ارب ڈالر ملنے سے زر مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر تک پہنچے گئے ہیں، حکومت پہلے کہتی تھی کہ عمران خان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیوجہ سے پٹرول ،ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جب آئی ایم ایف سے اسکا ٹونس لیا تو پھر بیانیہ تبدیل ہوا کہ نہیں عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔

اب تو عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوگئیں ہیں اب حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے نیا اقدام کر ے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا بجٹ اجلاس ہو رہا ہے مگر قومی اسمبلی کہ اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی کی شرکت دور کی بات بلکہ وفاقی وزرا بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوتےجو افسوسناک بات ہے بجٹ اجلاس میں 20،25 ارکان شریک ہوئے ہیں ارکان کی کوئی دلچسپی نہیں وہ سخت مایوس ہیں۔ 

اپوزیشن جماعت ہی کوئی نہیں جو کورم پوائنٹ آئوٹ کرے خورشید شاہ نے وزرا ء کی عدم موجودگی پر شدید احتجاج کیا اورا سپیکر راجہ پرویز اشرف سے کہا کہ آئندہ وہ خود کورم پوائنٹ آئوٹ کریں گے وزرا ء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور انکے ساتھیوں نے بھی واک آؤٹ کیا وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو وفاقی وزرا ء کی اجلاس میں عدم شرکت کا سخت نوٹس لینا چاہئے اجلاس پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ 

یہی صورتحال رہی تو حکومت کیلئے بجٹ منظور کرانا مشکل ہو جائے گا۔ ادھر سابق وزیر اعظم عمران خان ایک بار پھر احتجاجی تحریک کا اعلان کرنے والے ہیں اور اس مرتبہ وہ بھر پور تیاریاں کررہے ہیں، مہنگائی کی وجہ سے عوام میں بھی شدید ردعمل پایا جاتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس حد تک عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ،کیا وفاقی اور پنجاب حکومت اس عوامی ردعمل کو آنسو گیس لاٹھی اور گولی سے روک سکے گی اور اگر عوامی ردعمل شدید ہوتا ہے تو پاک فوج کا کردار کیا ہو گا۔ 

آئندہ تین چارماہ ملکی سیاست کیلئے انتہائی اہم ہیں اگر شدید مہنگائی سے متاثر لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر باہر آجاتے ہیں تو عمران خان نئے انتخابات کی تاریخ لینے میں کامیاب ہو نگے یا نہیں اگر موجودہ حکومت کسی پر یشر میں نہیں آتی اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت موجودہ رجیم کو جاری رہتی ہے تو اس سال انتخابات کا کوئی امکان نہیں، پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرفین کی خالی کی گئیں 20 نشستوں پر بھی ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں ،عمران خان نے ابھی سے دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کر دیئے ہیں اور وہ الیکشن کمیشن کے مسلم لیگ ن کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات لگا رہے ہیں۔ 

نومبر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت بھی ختم ہو رہی ہے اور دیکھنا یہ ہےکہ وزیر اعظم شہباز شریف سینیارٹی کی بنیاد پر کس کو آرمی چیف اور چیف آف جوائنٹ سٹاف لگاتےہیں ایک اطلاع یہ بھی چل رہی ہے کہ موجودہ آرمی چیف کو بھارت کی طرز پر چیف آف ڈیفنس بنا دیا جائے ابھی بہت سی افوائیں گردش کر رہی ہیں اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں کسی حتمی فیصلے کا امکان ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید