• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد علی سحر

مہنگائی، بے روزگاری اور بدحالی نے وطن عزیز کے ہر شخص کو ہی متاثر کیا ہے لیکن جو طبقہ بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہے، وہ نوجوان ہیں۔ نوجوان جو تعلیم سے فارغ ہوچکے ہیں،خصوصاً وہ روزگار کی تلاش میں ہیں، موجودہ حالات کے باعث انتہائی مشکل میں ہیں۔ ظاہر ہے جب والدین اپنے بچوں کو محنت سے پڑھا لکھا دیتے ہیں اور خود بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اب ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے گھر کی ذمہ داریاں اٹھائیں مگر وہ تو نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور شام کو مایوس گھر لوٹ آتے ہیں، ایسے میں اپنے بچوں کو مایوس دیکھ کر ماں، باپ بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔

وہ سوچتے ہیں کہ اگر جلد ہمارے بچوں کا روزگار نہیں لگا تو کیا ہوگا؟ مکان کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بلز کیسے ادا ہوں گے، گھر کا راشن کیسے آئے گا؟ ماں، باپ کو دل گرفتہ پا کر ان کے لاڈلے فرسٹریشن میں مبتلا ہوکر ڈپریشن اور کئی ذہنی امراض میں گرفتار ہوکر والدین کیلئے مزید پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ کچھ نوجوان اتنے زیادہ مایوس ہوجاتے ہیں کہ وہ نشے کی لت میں پڑ جاتے ہیں یا جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کا نشے کی لت میں پڑ جانا، جرائم کا راستہ اختیار کرلینا انتہائی خوفناک ہے ان سے تو ہمارے وطن کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ 

پاکستان دنیا کا خوش قسمت ملک ہے جہاں نوجوان بڑی تعداد میں ہیں لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں کی کرپشن اور غلط پالیسیوں نے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ جرائم پیشہ گینگ بے روزگار، مایوس نوجوانوں کو جرائم کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں حتیٰ کہ وطن دشمن عناصر ایسے نوجوانوں کو ورغلا کر چند ٹکوں کیلئے وطن عزیز کے خلاف استعمال کررہے ہیں، خطرناک راستہ دکھا رہے ہیں، خودکش بمبار بنا رہے ہیں۔

حالیہ خودکش دھماکا جو ایک بلوچ خاتون نے کراچی یونیورسٹی کے گیٹ پر کیا، جس سے کئی اموات ہوئیں، کیا ہماری بند آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی نہیں ہے؟ بے روزگاری کے باعث تعلیم یافتہ نوجوان سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے لگانے پر مجبورہوگئے ہیں، رکشے چلا رہےہیں، موٹرسائیکلوں پر فوڈ ڈلیوری کررہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہ رہے کہ یہ سارے کام کرنا مناسب نہیں ہیں کیونکہ محنت کرنا، اپنے ہاتھ سے روزی کمانا اللہ کو پسند ہے۔

ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر تعلیم یافتہ نوجوان یہ سب کام کریں گے تو ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے نوجوان کیا کریں گے؟ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ کراچی کے نوجوانوں کیلئے وفاقی اور صوبائی سرکاری محکموں میں داخلہ بند کردیا گیا ہے، سرکاری نوکریوں کو سندھ کے شہری نوجوانوں کیلئے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ روش غیر مناسب ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ یہ صورتحال جہاں نوجوانوں میں مایوسی اور نفرت کو جنم دے گی، وہیں سرکاری محکموں کی مزید تباہی کا سبب بنے گی۔ 

ہم صوبائی اور وفاقی حکومت سے یہی درخواست کریں گے کہ خدارا سندھ کے شہری نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں ان کا جائز حصہ دیں، ان کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کرکے ناانصافی نہ کریں۔ مایوس مت ہوں۔ اگر نوکری نہیں ملتی تو کوئی کاروبار کرلیں کہ تجارت آپ نبی پاک حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اللہ کو پسند ہے لیکن وہی بات کہ غریب، مفلوک الحال نوجوان کاروبار کرنے کیلئے سرمایہ کہاں سے لائیں؟

اسی حوالے سے حکومت کو ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو اس بے روزگاری سے نجات دلائے۔ یہ بات درست ہے کہ آج واقعی نوجوان سب سے زیادہ پریشان ہے، انہیں حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم بھی اپنے نوجواونوں سے یہی کہیں گے کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہوں، یہ پریشانی کا وقت جلد گزر جائے گا اور اچھے دن ضرور آئیں گے کیونکہ ہمارا رب خود فرماتا ہے کہ ’’ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘ اور بہ زبان شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال؎

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی