اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر ڈی سیٹ ہونے والے تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کوئی چھوٹی بات نہیں ہے ،یہ ایک انسان کے ضمیر کا معاملہ ہے،جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے واضح کیا ہے کہ منحرف اراکین کا معاملہ کیس ٹو کیس دیکھیں گے.
سپریم کورٹ کے سامنے پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹر شپ کا معاملہ بھی ہے،انہوں نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آرٹیکل63 اے کی تشریح میں انحراف کوپہلے ہی کینسر قراردےچکی،یہ چھوٹی بات نہیں ، ضمیرکا معاملہ ہے، سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے کہ اس کا کارکن اس سے وفاداری کرے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزاروں کے وکلاء کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر پارٹی سے انحراف کرنے اور پارٹی پالیسی کے برعکس مخالف جماعت کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کو ووٹ دینے کے نکتے پر تیاری کے ساتھ پیش ہوں ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزاروں کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اپیل کنندگان نے پارٹی پالیسی سے انحراف نہیں کیا ہے .
پی ٹی آئی نے وزیراعلی ٰپنجاب کے انتخاب کیلئے کوئی ہدایات ہی جاری نہیں کی تھیں جبکہ وزارت اعلی کیلئے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار پرویز الٰہی نے انتخاب کے روز اجلاس کا بائیکاٹ کردیا تھا.
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جب اپیل کنندگان کی جماعت نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا توپھر ان اراکین نے اجلاس میں شرکت ہی کیوں کی تھی ؟فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63اے کی تشریح میں انحراف کو پہلے ہی ایک کینسر قرار دے چکی ہے،یہ چھوٹی بات نہیں ہے،ایک انسان کے ضمیرکا معاملہ ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب وزیر اعلیٰ کیلئے پی ٹی آئی کا امیدوار مقابلے میں تھا تو پھر اپیل کنندگان نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ کیوں دیے تھے.
دوران سماعت پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے ڈی سیٹ ہونے والی عظمی کاردار روسٹرم پر آگئیں اور عدالت کو بتایا کہ ان کا کیس پارٹی سے انحراف کا نہیں ہے۔