• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسکان رومی

اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈراما نویس،ر، مترجم اور براڈ کاسٹر اشفاق احمد کے بیان کردہ ایک قصے نے مجھ پر بہت اثر کیا اُنہوں نے لکھا کہ،جب وہ باہر سے پڑھ کر آئے تو کلیام شریف والے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک بابا جی نے بڑے پیار سے پوچھا’’ہاں پتر اشفاق ! ولایت سے تعلیم حاصل کر آئے ہو کیا سیکھا وہاں سے ..۔ بابا جی کے اس سوال پر اشفاق احمد نے سوچا بابا جی سے دنیا کیا چھپی ہے اور کیا چھپانی ہے . پھر بھی ایسی بات بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ بابا جی حیران ہو جائیں،انہوں نے کہا،’’ بابا جی میں نے وہاں پڑھا کہ مکھی کی آنکھ میں ایک ہزار عدسے ہوتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کہ بابا جی کے چہرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ بابا جی میری بات سے کتنے حیران ہوئے۔

لیکن وہ کیا حیران ہوتے الٹا یہ کہہ کر میرے چودہ طبق روشن کر دئیے کہ،’’ پتر کی فائدہ ہویا ایہو جی اکھ دا فیر وی گندگی تے بھیندی اے (بیٹا ایسی آنکھ کا کیا فائدہ پھر بھی بیٹھتی تو گندگی پہ ہے) اشفاق احمد لکھتے ہیں، ’’بابا جی کے ان الفاظ نے تو میرے دل کی اور سوچ کی دنیا ہی بدل دی ،جی ہاں انسان کو اللہ نے یہ دو آنکھیں جو دی ہیں یہ بڑی نعمت ہیں۔

ہم لوگ من حیث القوم مجموعی طور پہ اندھے ہو چکے ہیں، جنھیں سب انسان اپنے سے کم تر نظر آتے ہیں اگر آنکھ تھوڑا بہت دیکھتی ہے تو صرف عیب ہی تلاش کرتی ہے۔ دل دکھتا ہے جب نئی نسل کو لعن طعن گالی گلوچ میں مصروف دیکھتے ہیں عہد حاضر کا نوجوان اپنے اندر تعصب لیے گھوم رہا ہے۔آہ ! یہ نوجوان نسل جس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں آج وہ فحش و عریانی کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ تعلیم حاصل کر کے بھی اخلاقیات سے محروم ہے۔

بے یقینی کی ایک فضا قائم ہے۔ مسلمان ہوکر بھی فضولیات میں مشغول ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ راستہ انہیں کھائی میں لے جائے گا اس کے باوجود اسی طرف آنکھ بند کر کے چلے جا رہے ہیں۔ بیش تر نوجوان کسی بھی سوشل معاملے کو اٹھا کر زیادہ سے زیادہ خود ساختہ تجزیہ اسٹٹس کی صورت میں فیس بک اور واٹس ایپ پر لگاتے ہیں جن میں غیر اخلاقی تجزیے شامل ہوتے ہیں جو کہ لکھنے اور سوچنے والے کی اپنی شخصیت خراب کر رہے ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال غلط ہے؟ ہر گز نہیں، مگر جو طریقہ ہماری نسل نے اپنا لیا ہے وہ غلط ہے۔

اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ اگر نوجوان انٹرنیٹ کا استعمال فلاحی کاموں میں کریں جن سے معاشرے میں بہتری آسکتی ہے تو کتنا اچھا ہو۔ اپنے رویے بدل لیجیے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی آنکھ کو شہد کی مکھی والی آنکھ بنالیں، برائی دیکھ کر اس سے محظوظ ہونے کے بجائے مثبت پرواز بھریں۔ 

یاد رکھیں ایک نہ ایک دن تو مرنا ہے تو فیصلہ خود کر لیں ایسا نا ہو آپ بوقت موت گالی گلوچ لعن طعن لینے دینے میں مصروف ہوں لہذا جب موت آئے تو آپ ایسے عمل میں مصروف ہوں کہ لوگ آپ کے اخلاق کی خوشبو سے لطف اٹھا رہے ہو اور فرشتے عرش پہ جا کر گواہی دیں یا اللہ تیرے بندے اس سے بہت راضی ہیں کیوں کہ یہ بہت اخلاق والا تھا۔

نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ اپنےآپ کو سمجھیں۔ اس دنیا میں آپ کو بے مقصد نہیں بھیجا گیا۔ اپنے مفاد کو ترک کریں کسی دوسرے کے حقوق کو غضب نہ کریں سوشل میڈیا کا استعمال مثبت کریں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ ورنہ یہ زوال ہمیں ختم کر دے گا۔