ایک جانب فنڈز روکنے اور اس میں کٹوتی کے معاملے پر خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کشمکش اور اس حوالے سے خطوط کے تبادلےکا سلسلہ جار ی ہے تودوسری طرف صوبے میں پولیس فورس حملوں اور ٹاگٹ کلنگ میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اور کوئی ایسا دن خالی نہیں جاتا جب صوبے کے کسی حصے خصوصاًضم شدہ اضلاع میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا، تاہم اس صورت حال میں سابق حکومت کے دور میں مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کا راگ لاپنے والی اپوزیشن جماعتوں کو تو گویا سانپ سو نگ گیا ہو۔
جے یو آئی اور اے این پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں نہ صرف تاریخی اور کمر توڑ مہنگائی پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ سیاسی سرگرمیاں بھی محدود کرکے کسی کونے میں خاموش تماشائی بن کرکے حالات کا جائزہ لے رہی ہیں، وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیاں سیاسی کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب وفاق نے صوبے کے قبائلی اضلاع میں صحت انصاف کارڈ کے لئے مختص فنڈز روک کر صوبے کودینے سے انکار کیا اور ضم اضلاع کے لئے صحت انصاف کارڈ پروگرام بند کرنے کا فیصلہ کیا ابھی اس حوالےسے صوبائی وزیرخزانہ اور وفاق کے درمیان خط و کتابت جاری تھی کہ وفاقی حکومت نے ضم اضلاع کے لئے مختص 85 ارب روپے کے بجٹ پر بھی کٹ لگا کر اسے 60 ارب روپے کردیا جس سےضم اضلاع کے لئے مختص بجٹ میں 25ارب کی کمی ہوئی جس پر خیبرپختونخوا حکومت سیخ پا ہوگئی اور وزیرخزانہ کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بھی وفاق کو خط داغ دیا جس میں وفاق کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ضم اضلاع کے بجٹ میں کٹوتی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اوراسے واپس لینے کی درخواست کی، صوبے اور وفاق کے درمیان فنڈز کے معاملے پر کشمکش کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اس دوران آئی ایم ایف کےساتھ معاہدے کا معاملہ سامنے آیا کہ اس مجوزہ معاہدے پر وفاق کے علاوہ چاروں صوبے بھی دستخط کریں گے، اور اس طرح صوبے کے ہاتھ وفاق کو بلیک میل کرنے کا موقع آیا۔
معاملہ کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبائی حکومت نے مجوزہ معاہد ے پر دستخط سے انکار کرتے ہوئے اسے وفاق سے مختلف واجبات کی مد میں 1332 ارب روپے کی وصولی سے مشروط کردیا،تاہم بعدازان وفاقی وزیر خزانہ کی یقین دہانی پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے آئی ایم ایف کے ساتھ مالیاتی ذمہ داری کے ایم او یو پر دستخط کرنے کی منظوری دے دی، تاہم قطعہ نظرا س معاہدے یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے اور ملک و قوم کی خاطر بے پناہ قربانیاں دینے والے قبائلی عوام کے ساتھ خیبرپختونخوا میں ضم کرتے وقت کئےگئے وعدے آج تک پورے نہیں کئے گئے نہ ہی انکی احساس محرومی دور کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ انضمام کے بعد ان قبائلی عوام کی مشکلات میں کمی آنے کی بجائے اس میں مذید اضافہ ہوا ہے اور یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کہ اس حوالے سے خیبرپختونخوا کے علاوہ پنجاب جو اہمیشہ بڑا بھائی ہونےکا دعدہ کرتا ہے سمیت کسی بھی صوبے نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کی نہ ہی قبائلی عوام کوان کا حق دیا گیا۔
سابق وفاقی حکومت کے ووران ضم اضلاع کا ترقیاتی بجٹ 24ارب سے بڑھا کر ڈیڑھ سو ارب تک پہنچایا گیا، سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں صوبوں نے این ایف سی میں اپنے اپنے حصے کا تین فیصد ضم قبائلی اضلاع کو دینے کا وعدہ کیا مگر خیبرپختونخوا حکومت کے علاوہ کسی بھی حکومت نے آج تک اپنے ان وعدوں پر عمل نہیں کیا، بلکہ وفاق میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نئی وفاقی حکومت نے ضم اضلاع کے موجودہ بجٹ پر بھی کٹ لگادئیے ہیں جس سے ان قبائلی عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پایاجاتا ہے۔
اگر ان علاقوں میں مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی ترقی نہ ہونے کے باعث حالات پھر سے خراب ہوگئے اور ان میں پائی جانےوالی احساس محرومی دور نہ کی گئی تو اس کا اثر صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے ملک پر پڑے گا اس لئے ضم اضلاع کے قبائلی کی زخموں کی پر نمک پاشی کی بجائے مرہم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری سرحدوں پرخطرات ختم نہیں ہوئے اب بھی منڈلا رہے ہیں اور دشمن کسی بھی وقت ان قبائلی احساس محرومی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس لئے اس سے قبل پانی سر سے گزر جائے قبائلی عوام کی زخموں پر مرہم رکھ کر انہیں ان کا آئینی حق دیا جائے۔
ادہر عین توقعات اور خدشات کے مطابق خیبرپختونخوا میں دہشتگردی پھر سے سر اٹھانے لگی ہے اور ماضی کی طرح اس بار بھی عوام کے محادظ پولیس اہلکار ہی شر پسند عناصر کے نشانے پر ہیں ان کے مذموم مقاصد کا آسان حدف بن گئی ہے، مردان میں پولیس چوکی پر شرپسندوں کے حملے کے بعد نوشہرہ میں دو مقامات پر دوران گشت پولیس موبائل اور رائڈر پر شر پسند عناصر کی فائرنگ سے اے ایس آئی سمیت 2 پولیس اہلکار زخمی ہو ئے، اسی طرح دور آفتادہ قبائلی علاقے وادی تیرا ہ میں بھی پولیس پر حملہ کیا گیا، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں پر ہلاکت خیز حملوں کے رد عمل میں عسکریت پسندوں کے خلاف بھی کارروائیاں تیز کی گئی ہیں اور دو مہینوں کے دوران 64 مبینہ دہشت گرد ہلاک۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال دہشتگردوں کے حملوں میں پچاس سے زیادہ پولیس اہلکار جان بحق جبکہ پچاس سے زائدزخمی ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے میں سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ہونے والے کارروائیوں میں 21 دہشتگردوں کو مختلف آپریشنز میں مارا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پچھلے ایک ماہ میں تقریباً 41 دہشتگردوں کو ہلاک کیا کیا، جن میں سے 5 جانی خیل، 24 وزیرستان، 10 بلوچستان اور 3 کلاچی میں مارے گئے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل معظم جاہ انصاری نے ایک تقریب سے خطاب ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصان خیبر پختونخوا پولیس کا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال 2022 کے پہلے 6 ماہ کے دوران خیبر پختونخوا کے 54 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 2006 سے لیکر اب تک ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد دو ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
رواں سال پولیس فورسز کے خلاف نامعلوم حملہ آوروں کے حملوں میں 56 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں، دہشت گرد نہ صرف عام پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ پولیو ٹیموں پر حملے کرکے ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کوبھی نشانہ بنارہے ہیں، بعض حلقوں کے مطابق پولیس فورس پر ان حملوں کے پیچھے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ کالعدم تنظیم داعش بھی ہے اور اس حوالے سے منصوبہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کی جاتی ہے، جس کا مقصد ان ضم شدہ قبائلی اضلاع میں پولیس نظام کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کو پھر سے ہوا د ینا ہے، تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جاسکے۔
افغانستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں بھی کالعدم تنظیم داعش کا باقاعدہ اجلاس ہوا ہے جس کی صدارت تنظیم کے سربراہ الیاس خراسانی نے کی ہے، اور مذکورہ مبینہ اجلاس میں خیبر پختونخوا میں دہشت گرد کاروائیاں مزید تیز کرنے کی منصوبہ بندی کی گئ ہے، اگرچہ کسی زرائع نے ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے، تاہم دہشت گرد اب بھی سرگرم ہیں اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے علاوہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اس لئے سیکورٹی اداروں کو ان دہشت گردوں کا نٹ ورک توڑنے اور ان کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کےلئے زیادہ متحرک رہنے کی ضرورت ہوگی، اللہ پاک اس ملک اور ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین