اسلام آباد (انصار عباسی) ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے کیس میں سپریم کورٹ کے مفصل فیصلے نے باضابطہ طور پر عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کا ’’حکومت کی تبدیلی‘‘ کی سازش کا بیانیہ مکمل طور پر دفن کرتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ یہ صرف ایک جھوٹی کہانی اور بے بنیاد سیاسی بیان تھا۔ فیصلے میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جسے پی ٹی آئی والے اپنی کامیابی قرار دے سکیں۔
اس کی بجائے، عدالتی فیصلے میں اُس وقت کی اپوزیشن جماعتوں اور ساتھ ہی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی توثیق ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جن سے عمران خان نے متعدد مرتبہ درخواست کی ہے کہ اس امریکی سازش کے حوالے سے تحقیقات کرائی جائیں جو ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنی۔
سپریم کورٹ کو پی ٹی آئی کے سازشی بیانیے کے حوالے سے کوئی متعلقہ اور ٹھوس ثبوت ملا اور نہ ہی یہ بات سامنے آئی کہ اس وقت کی عمران خان کی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات میں کوئی دلچسپی دکھائی تاکہ ان لوگوں پر ذمہ داری عائد کی جا سکے جنہیں عمران خان کی پارٹی والے امریکا کی تیار کردہ سازش کے مقامی شراکت دار قرار دیتے تھے۔
عمران خان کھل کر اپنے سیاسی مخالفین بشمول نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان پر اپنی حکومت ہٹانے کی امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ عمران خان واضح طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر امریکی سازش پر عمل کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور ہینڈلر کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کو اس بات پر حیرانی ہوئی کہ 7؍ مارچ 2022ء کو سائفر (سفارتی دستاویز) موصول ہونے کے باوجود اس میں موجود معلومات کے حوالے سے حکومت نے کوئی تحقیقات کرائی اور نہ یہ معاملہ 28؍ مارچ 2022ء اور 31؍ مارچ 2022ء کو ہونے والے سیشن کے دوران قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا.
اپوزیشن والوں پر عائد کردہ الزامات کے حوالے سے بھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اور جب 3؍ اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کی تحریک کو ووٹنگ کیلئے پیش کیا گیا تو اس وقت کے وزیر قانون نے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں یہ معاملہ پیش کیا اور ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی آئینی حیثیت کے حوالے سے رولنگ دیں۔
میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کابینہ نے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت مبینہ غیر ملکی سازش کی تحقیقات کی منظوری دی، بادی النظر میں حکومت کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر کوئی شواہد ہیں بھی تو وہ کافی نہیں جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ ڈپٹی اسپیکر نے قومی سلامتی کی بنیاد پر عدم اعتماد کی تحریک مسترد کی۔
لہٰذا، مواد کی قلت کے باعث ہم مذکورہ درخواست قبول کر سکتے ہیں اور نہ اس کے میرٹس کی بنیاد پر کچھ کہہ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ قومی سلامتی سے متعلق دو اداروں کا اجلاس 31؍ مارچ 2022ء کو ہوا جس میں سائفر کے مواد کے اثرات پر بحث اور فیصلے کیے گئے۔
اس میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس شامل ہے، کمیٹی کو سائفر کے مواد پر بریفنگ دی گئی، تاہم کمیٹی نے کوئی ٹھوس فیصلہ نہ کیا اور سائفر میں ’’غیر سفارتی اور ناقابل قبول‘‘ زبان کے استعمال پر صرف رسمی مذمتی بیان جاری کیا گیا۔ اس کے باوجود، وزیراعظم ہائوس میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم ترین اجلاس بھی ہوا تھا جس میں وزیراعظم، متعلقہ وزیروں اور سروسز کے چار سربراہان نے شرکت کی تھی۔
اجلاس کے بعد عمران خان حکومت کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں لکھا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے متفقہ طور پر اس بات سے اتفاق کیا کہ سائفر میں استعمال کردہ زبان پاکستان کے داخلی امور میں غیر ملکی مداخلت کے مترادف ہے، قومی سلامتی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ پاکستانی سفیر کے سامنے غیر ملکی سفارت کار کی جانب سے اختیار کیے جانے والے غیر سفارتی لب و لہجہ، جیسا کہ سائفر میں لکھا ہے، پر متعلقہ غیر ملکی حکومت کو سفارتی آداب کے تحت ڈیمارش جاری کیا جائے.
اجلاس میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی کہ اپوزیشن والوں نے یا کسی شخص نے عدم اعتماد کی تحریک غیر ملکی حکومت کی سازش کے تحت پیش کی ہے، اس حوالے سے کسی تحقیقات کا حکم نہیں دیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ پاکستان میں کسی شخص نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے میں کوئی مدد طلب کی یا اسے کوئی مدد ملی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے مبینہ غیر ملکی سازش کیخلاف سخت اقدامات کی تجویز پر تحفظات سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ٹھوس اقدامات کیلئے مواد کافی نہیں تھا۔
اس سے شاید یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پی سی این ایس اور متعلقہ میٹنگز میں حکومتی ارکان اور 31 مارچ 2022 کے اجلاس میں رد عمل میں شدت کیوں نہیں تھی۔