جامعہ کراچی میں ڈھائی ماہ قبل ہونے والے خود کُش دھماکے کے کیس کی گھتیاں سلجھنے لگی ہیں۔ خود کُش حملے کے بعد ہی سے پولیس اور حساس اداروں کی جانب سے مختلف مقامات پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ تاہم فوری طور پر کوئی بڑی گرفتار عمل میں نہیں آئی تھی تاہم، گزشتہ دِنوں پولیس نے رینجرز اور دیگر اداروں کے ہمراہ کارروائی کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث ایک اہم ملزم کو گرفتار کیا۔ گرفتار ملزم داد بخش عرف شعیب ولد مراد علی بلوچ لبریشن فرنٹ کے سلیپر سیل نیٹ ورک کا اہم کارندہ ہے۔
ملزم جامعہ کراچی خود کش حملے سمیت چینی باشندوں اور سیکیورٹی اداروں پر حملے میں بھی ملوث ہے۔ سی ٹی ڈی کی ٹیم نے پاکستان رینجرز اور دیگر اداروں کے ہمراہ کارروائی کرتے ہوئے ماڑی پور روڈ ہاکس بے کے قریب سے بی ایل ایف کے کارندے داد بخش عرف شعیب کو گرفتار کیا۔ گزشتہ دِنوں وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب،ایڈیشنل آئی جی عمران یعقوب منہاس اور سی ٹی ڈی کے افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی یونی ورسٹی میں چینی اساتذہ پر خود کُش حملے میں ماسٹر مائنڈ سمیت 4 کردار ملوث تھے،چاروں کی شناخت کر لی گئی ہے، دھماکے کا ایک کردار ماڑی پور سے پکڑا گیا۔
شرجیل میمن نے بتایا کہ گرفتار ملزم کراچی میں بی ایل ایف کے سلیپر سیل کا کمانڈر ہے۔ گرفتار دہشت گرد نے بتایا ہے کہ ہماری اہم تنصیبات دہشت گردوں کے نشانے پر تھیں، جامعہ کراچی میں ریکی کی تھی۔شرجیل میمن نے کہا کہ جامعہ کراچی دھماکے کی ذمے داری کالعدم جماعت نے قبول کی تھی، کالعدم جماعت نے ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں اعتراف جُرم بھی کیا۔ شرجیل میمن نے کہا کہ دہشت گرد پڑوسی ملک سے پاکستان میں داخل ہوا،گرفتار دہشت گرد خود بھی آئی ای ڈی بنانے کا ماہر ہے، دہشت گردوں کا آپس میں ٹیلی گرام کے ذریعے رابطہ ہوتا تھا۔
صوبائی وزیر کے مطابق دہشت گرد نے بتایا ہے کہ جامعہ کراچی میں دھماکا 2 کالعدم جماعتوں کا تھا، جس میں بی ایل اے اور بی ایل ایف شامل ہیں۔ جامعہ کراچی میں دھماکا کرنے والی خاتون شاری بلوچ کا کیس نفسیاتی ٹیم بھی دیکھ رہی ہے، جس کے شوہر اور ٹرینر نے اس کی نفسیاتی کیفیت کا فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد دوسرے ممالک کی مدد سے ہمارے ملک میں کارروائیاں کرتے ہیں، تاکہ یہاں انویسٹمنٹ نہ آئے، دہشت گرد ہمارے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں، جب کہ پاکستان ہر لحاظ سے محفوظ ملک ہے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ اس کیس میں بھی تمام اداروں نے مل کر اہم لیڈ حاصل کرلی ہے، دہشت گردوں کو قانون کے ذریعے سخت سے سخت سزا دلوائی جائے گی، کوئی بھی یہ نہ سوچے کہ وہ ریاست سے بڑا ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ عدم تحفظ کا شکار خواتین کو بھی ٹارگٹ کر کے مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ تفتیش ابتدائی مرحلے میں ہے، اس لیے جس ملک سے ملزم آیا، اس ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، ہمارے پڑوسی ممالک دہشت گردوں کی معاونت کر رہے ہوتے تھے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ اس کیس میں 4 اہم کرداروں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ ہم ایک بڑا نیٹ ورک پکڑنے میں کام یاب ہوئے۔ حملے کی ذمے داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ خود کش حملہ آور خاتون اکیلی نہیں تھی، بلکہ دیگر دہشت گرد اور سہولت کار بھی ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ خود کش بمبار شاری کے ساتھ ایک شخص بھی کراچی یونی ورسٹی میں موجود تھا، جو حملے سے قبل یونی ورسٹی سے نکل گیا تھا، اس شخص نے ماسک پہنا ہوا تھا اور اس کی شناخت اور اس تک رسائی ایک بڑا چیلنج تھا، جو ہم نے قبول کیا اور سراغ لگایا۔
حملے کا پہلا کردار خودکش حملہ آور شاری بلوچ تھی،دوسرا اہم کردار شاری کا شوہر ڈاکٹر ہیبتان تھا، تیسرا کردار جنگجو داد بخش ہے، جسے گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ چوتھا کردار کمانڈر زیب ہے۔ میڈیا کے پوچھے گئے سوال پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ فی الحال پڑوسی ملک کا نام نہیں لوں گا، سفارتی طریقے سے اس ملک کو آگاہ کیا جائے گا کہ آپ کی سرزمین دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے۔ میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے رینجرز حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے خاتون کو راغب کیا اور برین واش کیا گیا، یہاں ہمارے معاشرے کی ذمے داری آتی ہے کہ ایسے عناصر سے بچا جائے۔ کراچی یونی ورسٹی میں حملہ کرنے والی بمبار خاتون مخصوص ادویات کے زیر اثر تھی۔
دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے لیے ادویات بھی استعمال کر رہے ہیں۔ رینجرز کے کرنل نصرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ماہر نفسیات کی ٹیم نے بھی خاتون کی ویڈیوز کو بغور دیکھا، ممکنہ طور پر خاتون کو نشہ اور ادویات بھی دی گئی تھیں۔ باڈی لینگویج سے بھی لگا ہے کہ خاتون کی برین واشنگ کی گئی تھی۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش اہم انکشاف کیے ہیں۔
ملزم اپنے کمانڈر خلیل بلوچ عرف موسی کے حکم پر مختلف ٹارگٹس کی ریکی کرتا تھا۔ ملزم حساس تنصیبات اور چینیوں کی ریکی کرتا تھا، سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتار ملزم نے کراچی یونی ورسٹی میں خودکش حملہ کرنے والی خاتون کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر اور دوسرے انتہائی مطلوب دہشت گرد جس کا نام زیب ہے، سے کراچی میں ملاقاتیں کیں اور مکمل رابطہ میں رہ کر کراچی یونی ورسٹی میں موجود چائنیز پر حملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی۔
سی ٹی ڈی کے مطابق زیب جامعہ کراچی حملے کا ماسٹر مائنڈہے۔ سی ٹی ڈی کے سینئر افسر راجا عمر خطاب کے مطابق زیب پڑوسی ملک سے پاکستان میں داخل ہوا اور کراچی پہنچ کر اس نے اپنی رہائش شاری حیات بلوچ عرف برمش اور اس کے شوہر کے ساتھ دہلی کالونی کے فلیٹ میں رکھی ہوئی تھی۔ زیب خود بھی آئی ای ڈی بنانے کا ماہر ہے، حملے کے بعد ملزم خلیل بلوچ کے کہنے پر کراچی سے بلوچستان فرار ہو گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کسی کی نظر میں نہ آنے کے لیے وہ ٹیلی گرام ایپلیکیشن استعمال کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کا نیٹ ورک کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔
ملزم نے ساتھی ناصر اور شہزاد کے ہمرا ماضی میں گلبائی پر چینی باشندوں پر حملہ کیا تھا۔ملزم نے 2013 میں بی ایل ایف جوائن کی تھی۔ ملزم نے بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے اور نام ظاہر ہونے پر پڑوسی ملک فرار ہوگیا تھا۔ ملزم واپس کوئٹہ آیا اور اس نے اپنا جعلی شناختی کارڈ بھی بنوایا تھا اور نادرا ریکارڈ میں بھی اس کا نام آگیا تھا۔ اس حوالے سے بھی تفتیش جاری ہے کہ ملزم کی اس کام میں کس نے مدد کی۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق گرفتار ملزم نے سال 2020 میں کراچی سے پڑوسی ملک جا کر بی ایل ایف اور بی ایل اے کیمپ میں آئی ای ڈی بنانے کی تربیت مجید بریگیڈ کے ہیڈکوارٹر میں کیپٹن رحمان گل کے گھر کے تہہ خانے میں زیب سے حاصل کی سے تربیت لی، زیب انتہائی خطرناک دہشت گرد ہے، جو 26 اپریل کو خود کش حملہ آور شاری سے پہلے کراچی یونی ورسٹی میں داخل ہوا تھا اور دھماکے کے فوری بعد یونی ورسٹی سے نکل گیا تھا، گرفتار دہشت گرد نے بی ایل اے سربراہ بشیر زیب ،بی ایل ایف سربراہ خلیل بلوچ، ڈاکٹر اللہ نذر اور دونوں کلعدم تنظیموں کے تمام اہم کمانڈروں سے پڑوسی ملک میں ملاقاتیں کی تھیں۔ راجا عمر خطاب نے بتایا کہ گرفتارملزم داد بخش کو چشم دید گواہ نے عدالت کے روبرو شناخت پریڈ میں شناخت کر لیا ہے۔
گزشتہ روز ملزم کی نشاندہی پر اس کے گھر واقع نہارو گوٹھ گلشن اقبال میں تلاشی لی گئی، جہاں سے انتہای اہم شہادتوں کو قبضہ پولیس میں لیا گیا ہے۔ ملزم کے گھر سے جامعہ کراچی کے ایلکٹرونک نقشے، دو عدد ہینڈ گرنیڈ، ریمورٹ کنٹرول سرکٹ،بارودی وائر،سم کارڈز اور کچھ لڑکوں کے نام ملے ہیں ، ڈیٹونیٹر وغیرہ کا مقدمہ بھی ملزم کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی کے سینئر افسر راجا عمر خطاب نے بتایا کہ گرفتار ملزمان داد بخش نے اپنا شناختی کارڈ کسی اور کی فیملی ٹری میں داخل کر کے شعیب کے نام سے بنوا رکھا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ کے بعد ملزم نے گھر سے ان تمام چیزوں کو تلف کرنا تھا۔ تاہم واقعہ کے بعد ہونے والے چھاپوں کی وجہ سے ملزم واپس گھر جانے کے بہ جائے بلوچستان فرار ہو گیا۔ راجا عمر خطاب کے مطابق ملزم نے انکشاف کیا کہ خودکش حملہ آور شاری بلوچ کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان نے اس سے یونی ورسٹی کی ریکی کروائی، کیوں کہ ملزم ریکی کا ایکسپرٹ تھا اور واقعہ سے پہلے آنے والے جمعہ کے روز ڈاکٹر ہیبتان خود بھی پورے روٹ کی تصدیق کے لیے یونی ورسٹی گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جس گھر میں ملزم رہ رہا تھا ، یہ اس کا خفیہ ٹھکانہ تھا اور وہ اکیلا یہاں رہتا تھا،اس گھر کا اس نے کسی کو بتایا ہوا نہیں تھا،یہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا، اگر کسی سے ملنا ہوتا تو یہ باہر پارک یا کسی اور جگہ ملتا تھا،یہ گھر اسے بی ایل ایف کمانڈر خلیل بلوچ نے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے لےکر دیا تھا،خلیل بلوچ نے عزیز اللہ عرف قمبر اور اس نے دودا اور گھمشاد کے ذریعے یہ گھر ملزم کو لے کر دیا تھا۔
راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں پڑھنے والے تمام بلوچ طلباء اس میں ملوث نہیں ہیں، لیکن ان کو استعمال کیا جاتا ہے، وہ سہولت کار بن جاتے ہیں اور انھیں پتہ نہیں چلتا کہ اس کے پیچھے کیا نیٹ ورک ہے۔ ہیبتان کا اپنا نیٹ ورک تھا،ان کا کہنا تھا کہ بی ایس اے سی ( بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی ) میں بھی جو لوگ ہیں، انھیں احتیاط کرنی چاہیے۔ ملزمان نوجوان نسل کو استعمال کرتے ہیں اس لیے طلباء کو چاہیے کہ وہ احتیاط کریں، خاص طور پر جو گھروں کو کرائے پر لیتے ہیں،خط و کتابت کرتے ہیں یا کسی کے اکائونٹ میں پیسے آتے ہیں اور وہ کسی کو جا کر دیتے ہیں، اس میں انھیں احتیاط کرنی چاہیے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق پچھلے سال سے خواتین،بچوں اور طلباء کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے پیچھے ایک سوچی سمجھی پلاننگ ہے، جس کا مقصد معاشرے میں بے چینی پیدا کرنا اور دوسری طرف ان طبقات پر لا محالہ آنے والے رد عمل کو ہوا دینا اور اسے بھی ریاست کی ناکامی کا ثبوت قرار دینا ہے۔ کچھ نفسیاتی طور پر عدم تحفظ کا شکار خواتین کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
شاری بلوچ کا کیس ایک نفسیاتی معالجوں کی ٹیم کے زیر تحقیق ہے ،ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ شاری بلوچ کو انتہائی مکارانہ نفسیاتی استحصال کا نشانہ بنایا گیا اور اس مقصد کے لیے اس کا شوہر اور ٹرینر نہ صرف اس کی نفسیاتی کیفیت کا فائدہ اٹھاتے رہے، بلکہ مخصوص ادویات کا استعمال بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق یہ سفاک اور مکار گروپ نہ تو بلوچ روایات کا پاسدار ہے اور نہ ہی اپنے مفاد کے علاوہ کسی اور نظریے کا رکھوالا ہے، جو لوگ خواتین اور بچوں کو استعمال کر کے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔