• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

تمام قواعد و ضوابط پر عمل

میگزین ملا، گرما گرم پراٹھوں اور بھاپ اُڑاتی چائے کے ساتھ سر ِورق دیکھتے ہی آنکھیں خوشی سے نم سی ہو گئیں کہ ماہِ رمضان اختتام کو پہنچا اور عیدِ سعید آگئی۔ مدرز ڈے بھی آرہا ہے۔ کیسے صبح ،شام میں ڈھل جاتی ہے اور شام، صبح میں۔ ہر مدرز ڈے پر اپنی خالہ کی یاد تڑپا کر رکھ دیتی ہے۔ خطوط میں عموماً ہم دونوں بہن، بھائی تمام قواعد و ضوابط مدّ نظر رکھتے ہیں، بس خطوط اکٹھےاِس لیے ملتے ہیں کہ دونوں خط مجھے ہی پوسٹ کرنے ہوتے ہیں۔ بہرحال، قانتہ رابعہ کی تحریر بے حد پسند آئی۔ عرفان جاوید کی بھی کیا بات ہے۔ حامد فیاض نے بہترین معلوماتی مضمون سے فیض یاب کیا۔ منور راجپوت، شاہد اقبال، رئوف ظفر سب ہی کی تحریریں دل موہ لینے والی تھیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر پہنچے تو کچھ شناسا، کچھ غیر شناسا سے نام پڑھنے کو ملے۔ مگر اِک اِک تحریر اپنی جگہ اچھوتی سی محسوس ہوئی۔ (راجا افنان احمد، چکوال)

ج: جی بے شک، قواعد و ضوابط پر تو عمل ہوتا ہے۔ ہر تحریر، خوش خط، حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھی گئی ہوتی ہے، لیکن 80فی صد فلسفہ سر کے بہت اوپر سے گزر جاتا ہے۔ نتیجتاً یہی کچھ بچ رہتا ہے، جسے اکثر اوقات آپ خود بھی نہیں پہچان پاتے ہوں گے کہ ہم تو پہلے جملے سے درمیانی اور پھر آخری جملے بمشکل ہی مربوط کر پاتے ہیں۔

آنکھیں بھیگتی رہیں

اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتی ہوں، جو دِلوں میں چُھپے رازوں اور آسمان و زمین کی ہر ظاہر اور پوشیدہ شئے سے باخبر ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ قارئین کا اس مجموعہ ہائے تحریر (سنڈے میگزین) پر تنقید کرنا یا اس کو سراہنا ہی اس کی اہمیت کا پتا دیتا ہے۔ ’’مدرز ڈے ایڈیشن‘‘ کی کیا تعریف کروں۔ قانتہ رابعہ کی ’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘ پڑھتے آنکھیں بھیگتی رہیں۔ ناقابلِ فراموش ، اِک رشتہ ، اِک کہانی کے صفحات بھی سیدھے دل میں اترے۔ عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ سابقہ سلسلوں کی طرح خوب ہے۔ شفق رفیع کے اچھوتے موضوعات کا تو کوئی ثانی ہی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم بھی قارئین کی نبض پر ہاتھ رکھتی ہیں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس کے مضامین معلوماتی تھے۔ منور مرزا کا تجزیہ تو لاجواب ہی ہوتا ہے اور اب بات، بہترین صفحات ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ دونوں ہی پر آپ کا قلم اس انداز سے جلوہ گر تھا کہ ہم تو بس سحر زدہ ہی سے ہوگئے۔ (امّ حبیبہ نور، چکوال)

ج: آپ کے تین صفحات کے خط سے ہم تو یہ چند جملے ہی اخذ کر پائے ہیں۔ اللہ جانے آپ دونوں بہن بھائی کس ’’افلاطون‘‘ کے زیرِ تربیت ہیں کہ خطوط میں ایسے ایسے الفاظ و تراکیب لکھ مارتےہیں کہ پڑھتے ہوئے زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ مثلاً ابتدائی سطروں ہی میں آپ نے لکھا ’’جریدے کے مزید سلسلے، جن میں خوشبوئے سخن ، ذوقِ آگہی راز سربستہ ہیں۔ ان سلسلہ ہائے تحریر میں ہماری دل چسپی معنی خیز ہے۔‘‘ اُف! کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔ خدارا! آسان، سادہ الفاظ میں مختصر سا تبصرہ کردیا کریں۔ نہ خود گھمّن گھیریوں میں پڑیں، نہ ہمیں معمّے سلجھانے میں الجھائیں۔

پتے کی باتیں پتا چلیں

تازہ سنڈے میگزین میں آپ نے پروفیسر حکیم مقیم مرسلین کا انٹرویو شایع کیا۔ ماشا اللہ، چشمِ بددُور، حکیم صاحب نے تو بہت ہی عمدہ بات چیت کی۔ کئی پتے کی باتیں پتا چلیں۔ منور مرزا کا تجزیہ حسبِ معمول بہترین تھا۔ سرِورق کی ماڈل کا انتخاب بھی اچھا کیا گیا۔ عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ بھی خوب ہی چل رہا ہے۔ یادداشتیں میں پروفیسر نوشابہ صدیقی کی تحریر ’’وادیٔ جمیل میں‘‘ بے حد پسند آئی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی تینوں تحریریں پڑھ کر بھی بہت اچھا لگا۔ ڈائجسٹ کی ’’کرسی‘‘ کا جواب نہ تھا۔ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں’’ کنڈی کھلنے کی آواز‘‘ عمدہ انتخاب تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے

’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ میں حافظ محمد وقاص تنولی نے ماہِ رمضان اور قرآن کے متعلق بہترین معلومات فراہم کیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں شفق رفیع نے سول انجینئر پروفیسر ڈاکٹر تہمینہ ایوب سے بات چیت کی، اس میں ایک سوال کے جواب میں جو انہوں نے کہا کہ ’’ہماری گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ میّت بس بھی داخل نہیں ہوسکتی‘‘ تو یہ بالکل درست اور قابلِ غور بات ہے۔ رئوف ظفر نے نامیاتی خوراک کے ماہر، ملک نجم الدین مزاری سے معلوماتی گفتگو کی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری اور ڈاکٹر یاسمین شیخ دونوں کے مضامین بہت معلوماتی تھے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم اور عالیہ کاشف کا رائٹ اَپ بھی اچھا لگا۔ ’’آدمی‘‘ میں گیبرئیل سے ملاقات کرنا اچھا لگ رہا ہے۔’’متفرق‘‘ میں احمد اسلم جروار نے جنّت کی ٹیکنالوجی پر بہت منفرد سا مضمون تحریر کیا۔ ایسی تحریریں شایع کرتی رہا کریں۔ ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، پیارا گھر کی تحریریں شان دار انداز سے مرتّب کی جاتی ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ہم سے خادم ملک کےخطوط پسند کرنے کی وجہ پوچھی ہے، تو کیا ہماری پسندیدگی کے لیے یہ ایک بات ہی کافی نہیں کہ اُن کے خطوط پڑھ کر سب اُداس چہروں پر کچھ لمحات ہی کے لیے سہی، مسکراہٹ تو دوڑ جاتی ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آپ کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے اور ہمارے چہرے سے مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے، تو غالباً یہ فہم و ادراک کے فرق کا معاملہ ہوگا۔

سادہ اچھوتا اندازِ نگارش

کئی ہفتوں سے عرفان جاوید کا مضمون ’’گیبرئیل‘‘ قسط وار شایع ہورہا ہے۔ مَیں عرفان جاوید کا ہر مضمون بڑے شوق اور انہماک سے پڑھتا ہوں، بلکہ سچ کہوں تو مجھے اُن کے مضامین کا انتظار رہتا ہے۔ یہ حالیہ مضمون بھی ’’جنوں گردی اور جہاں گردی‘‘ کی ایک واقعاتی داستان، سفرنامہ ہے۔ عرفان نے سرزمینِ استنبول کے چپّے چپّے پر بیش تر پیدل گھوم کر اس شہر کے ایسے ایسے گوشے دریافت کیے ہیں کہ شاید بعض مقامات اور واقعات سے وہاں کے باسی بھی ناآشنا ہوں۔ پھر اسلوبِ تحریر اس قدر سادہ و دل کش ہے کہ قاری مسحور ہو کر مصنّف کے ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، گویا وہ محوِ مطالعہ نہیں بلکہ خود محوِ سفر ہے اور تمام مناظر کو بچشمِ خود دیکھ اور محسوس کررہا ہے۔ عرفان کا اندازِ نگارش سادہ ہونے کے ساتھ اچھوتا بھی ہے۔ عبارت مسجّع و مقفیٰ نہیں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قاری عبارت کی دل کشی میں گم نہیں ہوتا بلکہ واقعاتی اور تجزیاتی انداز سے متاثر ہوتا ہے۔ تحریر مبالغہ آرائی سے بھی کوسوں دُور ہے اور یہی اس کے مضمون کا اصل حُسن ہے۔ (محمد اکرام ملک)

ج: آپ غالباً عرفان جاوید کی سابقہ تحریروں پر بھی اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ ستائش بروقت، برملا اور برمبنی حقائق ہو تو لکھاری کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے۔ حالاں کہ مِن حیث القوم ہم توصیف سے زیادہ تنقید ہی پر یقین رکھتے ہیں۔ خیر، آپ کے جذبات و احساسات ان تک پہنچ گئے ہیں۔

ڈیڑھ سال صبر کر لیتے

تازہ شمارہ موصول ہوا۔ سرِ ورق پر ماڈل سولہ سنگھار کیے براجمان تھی۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی چشتیہ سلسلے کو فروغ دینے والے بزرگ، خواجہ مودود چشتیؒ سے متعلقہ رُوح پرور تحریر لائے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ایم عارف سکندری ایڈز جیسے لاعلاج مرض سے بچائو کی تدابیر بتا رہے تھے۔ ڈاکٹر افتخار برنی نے بُلند فشارِ خون سے تحفّظ کی پانچ ٹپس دیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منوّر مرزا نے عمدہ تجزیہ پیش کیا، نئی حکومت کی معاشی و خارجہ پالیسی کے حوالے سے۔ ’’تبدیلی خان‘‘ تو خزانے میں جھاڑو پھیر گیا ہے، نئی حکومت کو مشکلات کا گویا ایک پہاڑ سَر کرنا ہے۔ ویسے ہمارے خیال میں تحریکِ عدم اعتماد کچھ جلد بازی میں لائی گئی ہے۔ ڈیڑھ سال اور صبر کر لیتے، تو عمران خان اگلے الیکشن میں عوام کے پاس جانے کے قابل ہی نہیں رہتے، ووٹ مانگنا تو دُور کی بات۔ گوکہ شہباز شریف کو پنجاب سنوارنے کا تجربہ ہے، لیکن اس ڈیڑھ سال میں تو بمشکل چار سالہ گند صاف ہوگا، تو الیکشن کی تیاری کا کیا بنے گا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں چاند بدلی سے نکل رہا تھا۔ ’’آدمی‘‘ میں گیبرئیل کی استنبول سے محبّت جوبن پہ دکھائی دیتی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹرعزیزہ انجم اہم معاشرتی مسئلہ زیرِ بحث لائیں۔ ’’بہو لائیں یا بیٹی بیاہیں، دِل کا دامن وسیع رکھیں۔‘‘ بے شک ڈاکٹر صاحبہ کی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ دِل میں گھر کر جاتی ہیں۔ فرحی نعیم الفاظ کے درست استعمال پر زور دے رہی تھیں، تو ڈاکٹر شاہد ایم شاہد نے امرود کی افادیت بیان کی۔ ’’متفرق‘‘ میں رمیثہ نوین جدید علمِ کیمیا کے بانی کی تحقیقات، ایجادات اور اصلاحات پر فکرانگیز مضمون لائیں۔ یہ جدید سائنس ان ہی مسلم حکماء کی تحقیقات کی بنیاد پر کھڑی ہے، تب ہی تو علّامہ اقبال کا دِل یورپ میں ان کی کتب دیکھ کر سیپارہ ہوگیا تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد اپنے روایتی انداز سے کچھ ہٹ کر ’’پارو کے اَبّا‘‘ کا المیہ بیان کر رہی تھیں۔ ناقابلِ فراموش کے واقعات، اخترسعیدی کا ماہرانہ تبصرہ، عالیہ کاشف کا مرتّب کردہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ اور ہمارا صفحہ سب ہی صفحات ہماری پسندیدگی کے معیار پر خُوب پورے اُترے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ہم آپ کے سیاسی تجزیے سے سو فی صد متفّق ہیں۔ اگر تبدیلی خان اور اس کے حواری نالائق تھے، تو یہ بھان متی کا کنبہ اُن سے 10 ہاتھ آگے ہے۔ ایسی بھی کیا عوامی خدمت کی سوڑ پڑ گئی تھی انہیں کہ ڈیڑھ سال نہ نکالا گیا اور آتے ہی عوام کا جنازہ نکال دیا۔

تنبیہہ کر دیں

براہِ مہربانی اپنے کالم نگاروں کو ذرا تنبیہہ کریں کہ وہ نوازشریف کی وکالت بند کر دیں۔ عطا الحق قاسمی جیسے سینئر کالم نگار کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بیرونِ مُلک پاکستانیوں کو تارکینِ وطن کا خطاب دیں۔ کالم نگار کو تو نیوٹرل ہونا چاہیے اور سنڈے میگزین میں اس بار ماڈلنگ کا صفحہ رمضان المبارک کی مناسبت سے نہیں تھا۔ اس حوالے سے بھی ذرا فوٹوگرافر کو تنبیہہ کریں۔  (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: آپ کو تنبیہہ کرتے کرتے سالوں گزر گئے، آپ ٹس سے مس نہیں ہوئے، تو کالم نگاروں کو تو کچھ کہنا سُننا ہمارا استحقاق ہی نہیں۔ اور رمضان المبارک میں کون سی ماڈلنگ غیر مناسب تھی؟ جنگ، سنڈے میگزین وہ واحد جریدہ ہے، جس میں ہر دینی و ملّی، تہوار کا اہتمام عین اُس کے شایانِ شان کیا جاتا ہے۔

کچھ تحریریں بھیج رکھی ہیں

میگزین کی تاب ناکیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ سو، ہم بھی اپنے پسندیدہ سلسلوں کا مطالعہ بصد شوق کرتے ہیں۔ سفرنامے، انٹرویوز، اِک رشتہ، اِک کہانی وغیرہ من پسند صفحات ہیں۔ ہم نے بھی’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے کے لیے کچھ تحریریں بھیج رکھی ہیں۔ قابلِ اشاعت ہوں تو شایع فرما دیں۔  (مصباح طیب، نیوسیٹلائٹ ٹائون، سرگودھا)

ج: جی، ہر لائقِ اشاعت تحریر باری آنے پر بغیر کہے شایع کر دی جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام و عنوان شامل ہو جاتا ہے۔

تجزیہ لاجواب تھا

تازہ شمارہ زیرِ نظر ہے، گھر کے تمام افراد ہی کے زیرِ مطالعہ رہتا ہے۔ صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ بے حد مفید، معلومات افزا سلسلہ ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر محمّد سلیمان طاہر سے بات چیت کافی دل چسپ تھی۔ نئی حکومت کی معاشی خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہیے، اس حوالے سے منور مرزا کا تجزیہ لاجواب تھا۔ اُمید تو ہے کہ بلاول بھٹو اپنے نانا کی طرح ایک بہترین وزیرِ خارجہ ثابت ہوں گے۔ ناقابلِ فراموش کے واقعات بھی پُراثر تھے۔ (اسلم قریشی، میمن نگر، گلزار ہجری، کراچی)

                                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ماہ مئی کا تیسرا شمارہ ملا۔ اللہ والوں کے تذکرے کے بعد اللہ کے بندوں کی طرف بڑھے۔ سب سے پہلے ’’انٹرویو‘‘ سے فیض یاب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے جہاں ووکیشنل تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی، وہیں آرٹس ایجوکیشن کا بھی دفاع کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نمبرز کی دوڑ نہ صرف بچّوں کو ڈیپریشن میں مبتلا کر رہی ہے بلکہ اُنہیں اخلاقی برائیوں کا بھی شکار کر رہی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے صفحات تو ہمیں بھی چھوٹا موٹا ڈاکٹر بنا کر ہی چھوڑیں گے۔ ان کی روشنی میں ہم اپنا معائنہ خود ہی کرتے رہتے ہیں۔ ہر بیماری کی علامات پڑھ کر سانس رُکنے لگتی ہے کہ وہ علامات خود میں محسوس ہونے لگتی ہیں، سوائے موٹاپے کے۔ ایک طرف تو ڈاکٹرز کے ڈراوے اور دُوسری جانب حالات و واقعات کے بے رحم حقائق کے چابک، جو منور مرزا برسائے چلے جا رہے ہیں۔ اِس بار تو آپ نے اُنہیں دو صفحات دے ڈالے۔ جذباتیت بَھری قوم نہ جانے کب سمجھے گی کہ یہ خالی خولی نعروں، دعوئوں کی اہمیت آج کی دُنیا میں صفر بٹا صفر ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم اور فرحی نعیم کی بہت خوب صُورت اور مفید تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ ساسوں کے لیے بھی کوئی شُوٹ کروا دیجیے کہ آخر ہم نے بھی خیر سے ساس بننا ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر ملبوسات دیکھ کر خیال آیا کہ بیٹے کی شادی والے دن ہم کیا اور کیسا پہنیں کہ ساس نظر آئیں۔ یہ تمام ملبوسات تو سکھی، سہیلیوں اور بہنوں کے ہوئے۔ عرق مھزل کا اشتہار پڑھتے ایک لفظ پر ٹھٹھک گئے کہ چاک و چوبند صحیح ہے یا چاق چوبند۔ لغت سے استفادہ کیا۔ چاک کا مطلب پھٹا ہوا لکھا ہے۔ ہم نے شروع ہی سے لفظ چاق و چوبند پڑھا ہے۔ اب چاک و چوبند کا کیا مطلب ہوا، عرق مھزل والے بتائیں گے۔ ’’متفرّق‘‘ بھی منفرد رہا۔ کنول بہزاد کی مسکراہٹ ہی ہمیں ڈھیر کرنے کو کافی ہے۔ پتا نہیں کیوں، لوگوں نے، مونا لیزا کی مسکراہٹ کو سمبل بنا رکھا ہے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے باعث خط جلدی لکھ ڈالا۔ شہزادے بھائی نے بھی مخول کر کے آپ کو ہنسایا اور بزم کی گرما گرمی کو نرمی میں تبدیل کیا، خوش رہیں۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: جی بالکل، دُرست لفظ ’’چاق چوبند‘‘ ہی ہے۔ اشتہارات کی زبان و بیان پر تو قطعاً اعتبار نہ کیا کریں کہ خال ہی ہم نے کسی اشتہار میں الفاظ و تراکیب اور املا کا درست استعمال دیکھا ہے۔ یوں بھی بیش تر کمپنیز کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اُن کی کیچ لائن، ٹیگ لائن مقبول ہو جائے، بس اُن کے لیے یہی کافی ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* جنگ، سنڈے میگزین کی تعریف سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ویسے آپ نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ (راحیل قریشی، حیدرآباد)

ج: ارے بھئی! کیا کردیا ہم نے آپ کے ساتھ…؟؟

* عرصے سے جنگ رسالے کو ہر اتوار گھر میں آتا دیکھ کر گویا اس کو گھر کا ایک فرد ہی سمجھ لیا ہے، جو ہر اتوار اپنوں سے ملنے چلا آتا ہے اور گھر کے بڑوں سے لے کر بچّوں تک سب میں بے حد مقبول ہے۔ دادا سے لے کر پوتے، پوتیوں تک سب باری باری اس کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ اسی کی بدولت مَیں نے محسوس کیا کہ ہم یونی ورسٹی کے طلبہ جو سارا سال انگریزی میں محو رہتے ہیں، اردو سے خاصے دُور ہوگئے ہیں، جب کہ اردو تو بہت شائستہ اور مہذب زبان ہے۔ تازہ جریدہ بھی نہایت شان دار لگا ہمیشہ کی طرح۔ سنڈے اسپیشل میں وحید زہیر کی کتب خانے کے متعلق تحریر پڑھ کر دل کو جیسے قرار آگیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک نے جس عمدگی سے پارکنسن سے عوام النّاس کو آگاہ کیا، جواب نہ تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو سچ مچ کا ’’ہائیڈ پارک‘‘ ہے، بخدا پڑھ کے لُطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ (ڈاکٹر عفیفہ آفتاب، لاہور)

* اپنا ناول ’’سیاہ اور سفید کے درمیان‘‘ آپ کو بھیج رہی ہوں اور آپ کی رائے کی منتظر ہوں۔ (نائلہ عرفان)

ج: سوری۔ ناول معیار کے مطابق نہیں ہے۔

* مَیں نے ایک کہانی ’’دُعا‘‘ کے نام سے ارسال کی تھی، ہنوز کچھ اتاپتا نہیں۔ (ثناء حبیب، لاہور)

ج: آپ نے کہانی نہیں، ناول بھیجا، جسے ابھی تک دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔

* آپ یقین کریں گی، مَیں جنگ اخبار صرف سنڈے میگزین کی وجہ سے پڑھتی ہوں۔ (صاعقہ سبحان)

ج: اتوار کا اخبار آپ یقیناً سنڈے میگزین کی وجہ سے پڑھتی ہوں گی، لیکن باقی دنوں کا اخبار تو ہماری وجہ سے نہیں پڑھا جاسکتا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk