السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
گرفت مضبوط ہے
خداوندِ تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ آج پہلی باردو شماروں پر تبصرہ کررہی ہوں۔ آپ کا ’’عیدالفطر ایڈیشن‘‘ لاجواب تھا۔ راؤ محمد شاہد، نواب شاہ سے ’’میٹھی عید‘‘ کا میٹھا میٹھا مضمون لائے۔ منور راجپوت کا مضمون’’ عید تو خواتین کی ہوتی ہے‘‘، پورے میگزین کی سب سے خُوب صُورت تحریر تھی۔ جس کا ہر ہر لفظ بے مثال تھا۔ خصوصاً خواتین کے دلی جذبات و احساسات کی جو عکّاسی کی گئی، اس نے گویا ہر خاتون کا دل جیت لیا۔ ’’پُرتکلف کھانے اور ہماری صحت‘‘ حامد فیّاض کی خاصی معلوماتی تحریر ثابت ہوئی۔
کہی اَن کہی میں حاجرہ یامین کی سچّی، کھری باتیں بہت ہی اچھی لگیں اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا آپ کا رائٹ اپ تو جیسے لفظ لفظ موتی پرویا ہوا تھا۔ عرفان جاوید کی اپنے ’’آدمی ‘‘پر گرفت تو بہت ہی مضبوط ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’پہلی عید‘‘ کا جواب نہ تھا، قانتہ رابعہ گوجرہ سے نئے لکھنے والوں میں بہترین اضافہ ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے دمے سے متعلق تفصیلی مضمون لکھ کر معلومات میں بھرپور اضافہ کیا۔ منور راجپوت کا ’’نئی کتابیں‘‘ میں تبصرہ شان دار تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو پورے جریدے کی جان ہے۔ اگلے شمارے کا سرِورق دیکھ کر ہی دل کِھل اُٹھا۔ آپ کا ’’مدرز ڈے اسپیشل ایڈیشن‘‘ تو بلاشبہ بہت ہی اسپیشل ہوتا ہے۔
شفق رفیع نے خاص بچّوں کی اَن مول مائوں کو جو خراجِ تحسین پیش کیا، تو پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں عائشہ گُل کی باتیں زبردست تھیں۔ منور مرزا ’’عالمی تنہائی اور اس کے اثرات‘‘پر عمدہ تجزیے کے ساتھ آئے۔
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ثاقب انصاری نے تھیلیسیمیا اور پروفیسر ڈاکٹر پرویز اشرف نے گندم سے الرجی جیسے امراض پر سیرحاصل مضامین تحریر کیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی شام کی خاص چائے کا تو مزہ ہی آگیا۔ اور؎ تیرے دَم سے گھر ہے چاند کا ٹکرا ماں..... ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ عائشہ جہاں زیب کی داستانِ حیات سے جس طرح مرصّع کیا گیا، اُس کی تو توصیف کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے صفحات بھی مائوں کے عالمی یوم کی مناسبت سے مرتّب ہوئے اور کیا ہی خُوب صُورت انداز سے، ماشاء اللہ۔ ’’آدمی‘‘ میں عرفان جاوید،’’ جنون گرد،جہاں گرد‘‘ کے ساتھ بھی خُوب رنگ جما رہے ہیں۔’’ ایک پیغام پیاروں کے نام‘‘ کے بھی سب پیغامات اچھے تھے۔ پڑھ کر اچھا لگا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اپنا خط دیکھ کر تو بہت ہی خوشی ہوئی۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)
ج:جی ہاں بالکل، افسانہ نگاروں میں قانتہ رابعہ ایک بہت اچھا اضافہ ہیں۔
ناراضی گوارا نہیں
بمشکل تمام کچھ کہنے کی ہمّت وجسارت کررہی ہوں۔ شکوہ، گلہ اپنوں ہی سے کیا جاتا ہے، اور شاید ہم آپ کے اپنوں میں سے ہیں۔ ہمارے لیے یہ مقام باعث ِمسّرت ہے، وہیں آپ کی شکایت سر آنکھوں پر اور بجا بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ ہی کے الفاظ کی مسیحائی نے میرے سالوں کے سوئے ہوئے قلم کو جگا کر لکھنے کی ترغیب دی تھی۔ جان کی امان پائوں تو عرض کروں۔ ہم دراصل آپ کو مضمون بھیجنے میں لیٹ ہوگئے تھے، سوچا باری آنے تک تو یہ برکتوں والا مہینہ ہی گزر جائے گا، اور بس یہی خیال کہیں اور لے گیا۔ اس کے لیے دلی معذرت قبول کر لیں، آئندہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہ دیں گے۔ بخدا اگر آج آپ کہیں تو قلم چھوڑ کر پھر سے دنیا کی بھیڑ میں کہیں گم ہو جائیں، لیکن آپ کی ناراضی ہمیں کسی طور گوارا نہیں۔ یوں بھی یہ ماہِ صیام ماں جیسی بہن کے انتقال کے سبب آنسوئوں میں ڈوبے ہی گزرا۔ اپنی دو پیاری بڑی بہنوں کی یادیں تازہ کرنا چاہتی ہوں۔ اگر اجازت دیں تو تحریر بھیج دوں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: دیکھیں نازلی صاحبہ! ہمیں اپنے کسی بھی لکھاری کے، کسی بھی دوسرے جریدے میں لکھنے پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ ادارہ صرف اپنے تن خواہ دار ملازمین کو کسی دوسرے اخبار میں کام کی اجازت نہیں دیتا۔ عام لکھاریوں پر ایسی کوئی قدغن نہیں۔ آپ کسی بھی معاصر میں سو تحریریں بھیجیں، شرط صرف اتنی سی ہے، جو تحریر ہمیں بھیجیں ،وہ کہیں اور نہ بھیجی جائے۔ جب تک کہ ہم آپ کو اس کی اشاعت یا عدم اشاعت سے متعلق آگاہ نہ کردیں۔ ایک ہی تحریر بیک وقت کئی جرائد کو ارسال کرنا اخلاقاً غلط ہے اور ہم نے اسی پر آپ کو تنبیہہ کی۔ اللہ پاک آپ کی بہن صاحبہ کے درجات بلند فرمائے۔ اُن کی اُخروی و ابدی زندگی پھولوں کی سیج کے مترادف ہو۔ آپ ’’اِک رشتہ،اِک کہانی‘‘ کے لیے اپنے تاثرات رقم کرکے بھیج دیں، لیکن پلیز حاشیہ، سطر چھوڑ کے اور مختصر و جامع لکھنے کی کوشش کیجیے گا۔
کنگال ہو چکے ہوتے ہیں
اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ صرف ایک ہی جریدے میں شیڈول تھا، دیکھ کے خوشی نہیں ہوئی، پاکستان کے لیے نئے سفارتی چیلنجز لاجواب تجزیہ تھا۔ پروفیسر حکیم مقیم مرسلین نے اپنے انٹرویو میں سو فی صد درست فرمایا کہ ’’زبان کاچٹخارا، بیماریوں کا پٹارا۔‘‘ ’’آدمی‘‘ کی دونوں اقساط شان دار تھیں۔ ’’یادداشتیں ‘‘ میں اس بار جمیل جالبی موجود تھے۔ بلاشبہ ادب کے حوالے سے وہ بہت بڑی شخصیت تھی۔ ’’عید ایڈیشن ‘‘ کے تو سارے ہی مضامین ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ ’’آزاد پاکستان کی پہلی عید‘‘ خاصی منفر ثابت ہوئی ۔
رائو محمد شاہد اقبال کی’’ میٹھی عید‘‘ میٹھی میٹھی تحریر تھی، تو منور راجپوت کے مضمون’’ عید تو خواتین کی ہوتی ہے ‘‘ کا بھی کوئی مول ہی نہ تھا۔یوں بھی حضرات بے چارے تو شاپنگز کروا کروا کر اور عیدیاں دے دے کر اس قدر کنگال ہوچکے ہوتے ہیں کہ عموماً عید کے تینوں دن سو کر ہی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’’کہی اَن کہی ‘‘میں حاجرہ یامین نے ہم سے اپنے دل کی باتیں شیئر کیں، بہت اچھا لگا۔ ’’اسٹائل‘‘ کا رائٹ اپ آپ نے لکھا اور کیا خوب لکھا۔ کبھی کبھی اس صفحے پر آجایا کریں پلیز، اور بہت شکریہ کہ ناچیز کا پیغام ایک بار پھر ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کی زینت بنا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں مامے کا پتر ٹائپ عجیب و غریب مخلوقات کیوں ڈیرے جما رہی ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: آپ بے فکر رہیں، اس بزم میں جو تہذیب و شائستگی کے ساتھ آئے گا، سو بسم اللہ، بصورتِ دیگر منجی بستر سمیت ردّی کی ٹوکری میں قیام پذیر ہوگا۔ ہم نے جس حد تک لبرٹی دینی تھی، دے دی، اب مزید یہ تماشا نہیں چلے گا۔
وقیع مندرجات سے بھرپور
اَن گنت معلوماتی، تفریحی اور معیاری تحریروں کا عکّاس ’’سنڈے میگزین ‘‘ہر طبقے کا پسندیدہ اور مقبول ترین جریدہ ہے، جو وقیع مندرجات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اِس بار بھی حسبِ سابق ہر صفحہ ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ نثری تخلیقات کے ساتھ خطوط کا صفحہ تو شمارے کو گویا چار چاند لگادیتا ہے۔ (شرلی مرلی چند گوپی چند گھوکلیہ،شکار پور)
قومی اتحاد کی وَن ڈش پارٹی
؎ پانی چشمے توں بَھرنے آں… ناں لے کے سوہنے رب دا، آغاز پئے کرنے آں۔ عید کے لمحات میں خوشیوں کے جذبات میں، تشفیٔ ذوق کے واسطے بڑے شوق سے تحفۂ عید تھاما تو خوش نما عید ایڈیشن کے شوخ رنگ ٹائٹل نے تبسّم آمیز عید مبارک پیش کی۔ عیدالفطر اسپیشل وَن میں کرنل (ر) محمد سلیم ملک نے آزاد پاکستان کی پہلی عید کی خوں چکاں رُوداد سنائی۔
اِدھر ’’نئے پاکستان‘‘ کے دھڑن تختے کے بعد آئی پہلی چاند رات کو شامِ غریباں میں ڈھال کر ’’صادق‘‘ خان نے نیوٹرل عوام کو سزا دینے کی ناکام سعی کی، یعنی ’’کمہار پر بس نہ چلا، گدھیا کے کان اینٹھے‘‘ عالمی یومِ مزدور کے موقعے پر رپورٹ میں گھوسٹ اساتذہ اور ملازمین کے خاتمے کو چائلڈ لیبر کے تدارک سے تعبیر کیا گیا۔ اور اِدھر لال کوٹھی ہائی اسکول میں محمّد سلیم راجا نامی ایک Ghost (بھوت پریت) نے ڈیوٹی سے ساڑھے تیرہ سال میں کوئی چھٹی نہیں کی ہے۔
شستہ و رفتہ لکھاری رائو محمد شاہد اقبال کے عید آرٹیکل ’’میٹھی عید‘‘ میں درج اس حدیثِ پاک سے قلبِ سلیم منور ہوگیا۔ ’’جسے کوئی ہدیہ ملے، وہ اس کا تذکرہ کرے، تو اُس نے شُکر ادا کیا، اور جو اُسے چُھپائے، تو اُس نے اس کا انکار کیا۔‘‘ پہاڑی نشیں محبوب لیڈر کو یہ سطورِ زرّیں بطور توشۂ آخرت ٹویٹ کیے دیتے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ سے آشیر واد پاکر بے تاج راجا (بے اختیار بھی) نے رانی سگھڑ جی (بااختیارو باکمال) کو Eid moon وش کیا؎ دیکھا ہلالِ عید تو آیا تیرا خیال… عید الفطر اسپیشل تھری میں منور راجپوت کے دل چسپ پیرایہ مضمون کو ہم ثنا خوانِ تقدیسِ نسواں نے یوں پیراہن معنی پہنایا کہ گھر کی ملکہ کو گھر گرہستی میں ملکہ حاصل ہوتا ہے۔
میگزین ٹیم کے چاکلیٹی ہیرو ، عرفان جاوید کی جہاں گرد گیبرئیل سے دل لگی لُطف دے گئی کہ ’’تمہارے ہاں جتنی آسانی سے محبّت آتی ہے، اُتنی ہی آسانی سے چلی بھی جاتی ہے۔‘‘ عالمی یومِ دمہ کے خاص مضمون پر ڈاکٹر صاحب کو ’’ویل ڈن‘‘ وش کیا۔ تاہم، عالمی یومِ صحافت پر کسی آزادانہ، منصفانہ اور بے باکانہ آرٹیکل کو مِس بھی کیا۔ عالیہ کاشف کا پیغام ٹِری، پیار بھرے عید سندیسوں سے مہک رہا تھا۔ اور انتہائے نگارش، اہلِ وطن سے ہماری ہے یہی گزارش کہ پارٹی بازی سے بالاتر ہوکر سبھی قومی اتحاد کی وَن ڈش پارٹی کے حُسنِ انتظام میں جُت جائیں۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
لکھنے والوں میں بہترین اضافہ
تازہ نگارشات میں منور مرزا کی پاکستان کے سفارتی چیلنجز پر تحریر کمال تھی ۔ مولانا راشد شفیع نے رمضان کی فضیلت اور اقصیٰ منور نے صحابیاتؓ سے متعلق عمدہ مضامین تحریر کیے۔ حکیم مقیم مرسلین کا انٹرویو لاجواب تھا۔ عرفان جاوید کا گیبرئیل بھی خوب ہے۔ ڈائجسٹ، اِک رشتہ، اِک کہانی، ناقابلِ فراموش سب ہی صفحات عمدگی سے مرتّب ہو رہے ہیں۔ ویسے آپ جس محبت و محنت سے اس جریدے کی آرائش و زیبائش کرتی ہیں، یہ آپ ہی کا طرئہ امتیاز ہے۔ لوگ کچھ بھی کہتے رہیں، آپ کی دنیا ہی الگ ہے۔ اگلے شمارے میں منورمرزا کی تحریر ’’عالمی تنہائی کے اثرات‘‘ بہت متاثر کُن تھی۔ قانتہ رابعہ نئے لکھنے والوں میں ایک باکمال، بہترین اضافہ ہیں۔ متفرق اور ایک پیغام کے صفحات بھی دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو جریدے کی شان ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، مظفرگڑھ)
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
ربِّ کریم سے دعا ہے کہ ہمیشہ خیریت سے رہیں۔ اور اسی طرح سب کے دل خوش کرتی رہیں، جس طرح آپ نے میرے پہلے ہی خط کو مسندِ خاص پر جگہ دے کر میرا دل خوش کیا۔ ویسے میری خوشی کا اندازہ آپ شاید ہی لگاسکیں کہ اِس بار جیسے ہی سنڈے میگزین ہاتھ آیا، مَیں نے اپنی عادت کے برخلاف (کہ مَیں ہمیشہ مطالعے کا آغاز آخری صفحے سے کرتی ہوں) سرِورق دیکھنے کے بعد پہلے صفحے سے مطالعہ شروع کیا۔ دل میں سوچ رہی تھی کہ آج بھی کون سا میرا خط شایع ہوا ہوگا، مگر جب اچانک آخری صفحے پر نظر پڑی اور درمیان میں اپنا نام جگمگاتا دیکھا، تو بخدا خوشی سے زور کی چیخ نکل گئی۔ میاں صاحب جو کمرے میں اپنی جادو کی ڈبیا (موبائل) میں مصروف تھے، دوڑے چلے آئے کہ نہ جانے کیا ہوگیا۔ ہم نے بتایا، ہمارا خط ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ ٹھہرا ہے، تو بھی کچھ نہ سمجھے کہ وہ تو اخبار میں شہ سرخیوں اور ضرورتِ رشتہ کے اشتہارات کے سوا کچھ نہیں پڑھتے۔ ہاہاہا!!کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اپنی خوشی میں کسے شریک کروں، تو فوراً اپنی چٹھی کی تصویر لے کر بیٹی کو اسلام آباد (جہاں وہ پڑھتی ہے) واٹس ایپ کردی کہ وہ بھی سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتی ہے۔
قصّہ مختصر، ہماری حوصلہ افزائی کا ازحد شکریہ۔ ایک بات بتائوں، آپ جو یہ سطر، حاشیہ چھوڑنے کا کہتی ہیں ناں تو مجھے اسکول کا زمانہ اور اردو کا پرچہ یاد آجاتا ہے، جس میں ایک جملہ اور بھی ہوتا تھا ’’صفائی کے اضافی نمبر ہیں۔‘‘ ہاہاہا.....اب میں فوراً سے پیش تر مندرجات پر آجاتی ہوں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ رمضان المبارک کے دینی صفحات بہت ہی عمدگی سے مرتّب کیے گئے۔ عید الفطر کا شمارہ پڑھا، تو بہت ہی مزہ آیا۔ خاص طور پر منور راجپوت کی تحریر ’’عید تو خواتین کی ہوتی ہے‘‘ میں اُنھوں نے جس طرح خواتین کی خدمات کو سراہا اور اُنھیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا، قابلِ تعریف تھا۔ اے کاش! ہمارے یہاں کے تمام حضرات اِسی طرح سوچیں اور گھر کی خواتین کی تھوڑی سے حوصلہ افزائی کردیا کریں، تو کتنے گھریلو جھگڑے اور مسائل تو یوں ہی ختم ہوجائیں۔
ویسے آپ کے یہ ’’ہر فن مولا قلم کار‘‘ ماشاء اللہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، خوب ہی لکھتے ہیں اور تو اور، پچھلے شمارے میں یہ پڑھ کر تو سخت حیرت ہوئی کہ خیر سے منور راجپوت ہی محمد احمد غزالی بھی ہیں، تو بس اب اتنا ہی کہوں گی، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ حاجرہ یامین کی ’’کہی اَن کہی‘‘ بے حد پسند آئی۔ دراصل روایتی سوالات سے ہٹ کر بات ہونے لگی ہے، تو سلسلے میں بھی بہتری آرہی ہے۔ اور اب بات ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریر کی، تو واللہ انتہائی خُوب صُورت تحریر تھی۔ یہ اشعار کہاں سے ڈھونڈ کے لاتی ہیں آپ اور وہ بھی ہر موقعے کی مناسبت سے، واہ واہ کیا کہنے۔ الفاظ کی ایسی ’’موتی مالا‘‘ بس آپ ہی کا خاصّہ ہے۔ ویسے میرا خط کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھنے لکھانے کو جی چاہتا ہے۔ بہت سے مسائل، دکھ درد ہیں، میرے دیس اور دیس واسیوں کے۔
خصوصاً میرے پاس آنے والی مریضائوں کے، جو عموماً اپنے دل کی باتیں کرجاتی ہیں، تو جی چاہتا ہے، ان سب سلگتے ہوئے مسائل پر کچھ لکھوں یا صحت کے متعلق عوام النّاس کی آگہی کے لیے کچھ لکھوں، بس کسی طور لوگوں کے دُکھ درد کچھ کم کرپائوں (اللہ کرے، مجھے کبھی اتنی فرصت مل جائے) آج یہ خط بھی اِس لیے لکھ پارہی ہوں کہ لائٹ نہیں ہے اور انٹرنیٹ بھی بند ہے۔ ہاہاہا.....ایک گزارش کرنی تھی، محمود میاں کی تحاریر کا سلسلہ پھر سے شروع کیجیے۔ مجھے اُن کی تحریریں بہت پسند ہیں کہ اُن کا طرزِ تحریر بہت سادہ، عام فہم اور دل پر اثر کرنے والا ہے۔
اور ہاں، نیا ناول کب آرہا ہے؟ اب آتی ہوں ’’آپ کا صفحہ‘‘ یعنی اپنے صفحے کی طرف۔ بڑی حیرت ہوتی ہے سلیم راجا، پرنس افضل شاہین، ڈاکٹر ڈاھا اور شِری مرلی چند وغیرہ کے خطوط پڑھ کر کہ اتنی جلدی پورا رسالہ پڑھ کے تبصرہ بھی کرلیتے ہیں۔ ایک ہفتہ تو چٹکی بجاتے گزر جاتا ہے۔ خصوصاً سلیم راجا کو تو میری طرف سے سیلوٹ پیش ہے۔ اس قدر باریک بینی سے سنڈے میگزین کا مطالعہ کرنا اور اتنی محبت اور فرصت سے تبصرہ کرنا کہ اُن پر سنڈے میگزین کے انسائیکلو پیڈیا کا گمان ہوتا ہے۔ (دُعا گو، ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور میرس)
ج: امید ہے، آج خوشی سے چیخ نہیں نکلے گی۔ وہ کیا ہے ناں، اب تو عادت سی ہے مجھ کو۔
گوشہ برقی خطوط
* عرفان جاوید کے طرزِ تحریر کی مدّاح ہوں۔ جب بھی اُن کی تحریر پڑھی، بہت کچھ سیکھا۔ یوں بھی سفرنامے، خاکے وغیرہ پڑھنا بہت لُطف دیتا ہے۔ اور ’’آدمی‘‘ سلسلے سے یہ شوق بخوبی پورا ہورہا ہے۔ ’’گیبرئیل‘‘ پڑھ کے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتی ہوں۔ (صبا سلیم)
* حالیہ سنڈے میگزین میں اپنی غزل دیکھ کر مسّرت ہوئی۔ میری جنگ اخبار سے قلمی معاونت 1968ء سے بچّوں کے صفحے سے ہے، جسے راول پنڈی سے مضطر اکبر آبادی شایع کیا کرتے تھے۔ بعدازاں، یہ رفاقت الطاف پیرزادہ کی زیرِادارت چھپنے والے طلبہ کے صفحے اور پھر مختلف اصحاب کی زیرِنگرانی شایع ہونے والے ادبی صفحات سے قائم رہی اور اب آپ کی سرپرستی میں سنڈے ایڈیشن کے ساتھ یہ سفر جاری ہے۔ (خاور اعجاز، اسلام آباد)
* تحریر کو لائقِ اشاعت سمجھ کر شایع کیا، اس کے لیے بے حد شکریہ۔ میری تحریر کا آپ کے میگزین سے تعلق بوڑھے شاعر کے بوسیدہ کاغذوں میں سانس لیتی پہلی محبت کی طرح امر ہوگیا ہے۔ آپ کی کام یابیوں کی ڈھیر ساری دعائیں۔ (منیبہ زکریا)
ج: شکریے کی کوئی بات نہیں۔ یہ آپ سب کا میگزین ہے اور ہماری پوری کوشش رہتی ہے کہ ہر وہ تحریر جس میں رتّی بھر بھی جان ہو، اُسے قابلِ اشاعت بنا کر قارئین کے روبرو پیش کردیا جائے۔ آپ آئندہ بھی مشق جاری رکھیں۔
* میرے والد صاحب ’’نئی کتابیں‘‘ کا صفحہ بہت ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جو کتاب اُنہیں پسند آتی ہے، وہ خریدنا بھی چاہتے ہیں، لیکن کبھی پبلشر کا نام صحیح نہیں ہوتا، تو کبھی پتا، پھر کوئی فون نمبر وغیرہ بھی درج نہیں کیا جاتا، تو ہم مطلوبہ کتاب کیسے خریدیں۔ (زین العابدین قادری)
ج: ہم انتہائی ذمّے داری سے ہر کتاب پر درج مکمل پتا بہت توجّہ اور احتیاط کے ساتھ شایع کرتے ہیں۔ اب اگر کسی ناشر نے کتاب ہی پر مکمل یا درست پتا نہ لکھ رکھا ہو، تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk