گزشتہ ہفتےامریکی صدرجوبائیڈن دو روزہ اسرائیل کے دورے کے بعد سعودی عرب گئے۔ سعودی عرب اور امریکا کے سفارتی تعلقات 1931ء میں قائم ہوئے تاہم 1940ء تک سعودی سفیر قاہرہ میں مقیم رہے۔ چالیس کی دہائی میں سعودی عرب دنیا کا دوسرا بڑا تیل کا ذخیرہ رکھنے والا ملک کہلایا۔ اس دوران سعودیہ اور امریکا معاشی سفارتی دفاعی تعلقات مستحکم ہو چکے تھے ان میں مزید اضافہ ہوا۔ سعودی طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکا نے مواقع فراہم کئے۔ خاص طور پر سعودیہ اور امریکا نے اپنے مقامی تعلقات کو 2016ء میں سعودیہ نے وژن 2030ء کا اعلان کیا جس کا مقصد صنعتی زرعی سماجی اور تحقیق میں کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔
سعودی شہزادہ فیصل نے جدہ کے قریب ایک نئے شہر کی تعمیر کا عزم کیا اس شہر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ جہاں دنیا کی تمام جدید ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ سعودی عرب عالمی بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او اور اقوام متحدہ کا مستقل اور اہم رکن ہے قبل ازیں جب تیل دریافت نہیں کیا تھا۔ سعودی بہت غربت میں زندگی گزارتے تھے۔ عازمین حج کی آمدنی، کھجور ایکسپورٹ اہم ذریعہ معاش تھا۔ 1944ء امریکن آئل کمپنی نے پوری طرح کا م شروع کیا۔
آمدنی دوچند ہوگئی۔ 1950ء میں سعودی عرب نے آرمکو سے اصل منافع کا نصف کا حصہ دار ہوگا۔ 1973ء میں آرمکو اور حکومت کے مابین خاصی کشیدگی رہی۔ آٰرمکو نے کام بند کر دیا۔ اس دور میں تیل کا بحران آیا اور دنیا میں افراتفری بڑھ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ذوالفقار علی بھٹو کا نظریہ کارفرما تھا جس کو شاہ فیصل نے تسلیم کیا تھا۔
1973ء میں ہی شاہ فیصل نے کمپنی کو 14حصہ کے بجائے پوری کمپنی اپنی تحویل میں لے لی۔ اس عمل کے نتیجے میں شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا ۔
اس اثناء میں عراق کے صدر صدام حسین کے دماغ میں جانے کیا سمایا کہ انہیں کویت فتح کرنے کی ٹھانی اس ضمن میں انہوں نے کویت میں تعینات امریکی سفیر خاتون سے معلوم کیا کہ اگر عراق کویت پر قبضہ کر لے تو امریکا کا کیا ردعمل ہوگا۔ اس سفیر خاتون نےطے شدہ منصوبہ کے تحت صدر صدام کو کہاکہ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے عراق اور کویت اس کو طے کریں امریکا اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔
صدر صدام حسین اس جھانسے میں آگئے اورکویت پر چڑھائی کردی۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی مگر اس سے بڑی غلطی امریکی صدر جارج بش نے کی اور عراق پر آٹھ لاکھ فوج کے ساتھ حملہ کیا اور صدر صدام کو بے دردی سے قتل کردیا۔ کچھ عر صے بعد جب کویت اور عراق کے چھاپہ ماروں نے امریکا کو ناک چنے چبائے تب صدر بش نے افسوس کیا کہ ایسے عناصر سے صدر صدام اچھی طرح نمٹنا جانتا تھا اس کا قتل ایک غلطی تھی۔
امریکا نے خطہ کو دفاعی طور پر غیر مستحکم کردیا۔ امریکا طاقت کے زوم میں ایسی اور بھی غلطیاں کر چکا اور کر رہا ہے اس کو امریکا کی گن بوٹ پالیسی بھی کہا جاتا ہے۔ مگر اب عرب خطہ میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ جس کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکا پلس عرب ممالک کی گرائنڈ کانفرنس کا انعقاد کیاگیا۔
عرب ممالک کے علاوہ جنوبی اورمغربی ایشیا میں اس کانفرنس کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ جدہ میں منعقدہ ایک روزہ کانفرنس عرب ممالک کے سربراہوں نے اور امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنا اپنا مؤقف واضح طور پر بیان کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور مشترکہ جدوجہد پر زور دیا گیا۔
قبل ازیں امریکی صدور میں بینجمن روز ایلیٹ نے پہلا دورہ 1945ء میں کیاتھا ، اس کے بعد رچرڈ نکسن ،جمی کارٹر ، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن، جارج بش، بارک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور اب صدر جوبائیڈن نے دورہ کیا۔
کانفرنس کا بنیادی مقصد عرب رہنمائوں اور امریکا کے مابین تعلقات کو زیادہ بہتر بنانا، مشترکہ جدوجہد کرنا، دفاعی صلاحیتوں کو فروغ دینا وغیرہ ہے۔ کانفرنس کے بعد ہررہنما نے اپنا مؤقف واضح کیا اور آئندہ کے معرکوں کا مشترکہ طور پر سامنا کرنے پر زور دیا۔ رہنماؤں کی گفتگو اور باڈی لینگوئج سے واضح طور پر ظاہر تھا کہ وہ ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں امریکی صدر کا بھی رویہ کچھ ایسا ہی رہا۔
واضح رہے کہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے چند ماہ میں دوبار بیان دیا ہے کہ ’’وقت آگیا ہے کہ سعودی عرب سے مکہ شریف اور مدینہ منورہ واپس لیاجائے۔ اس بیان میں دھمکی بھی واضح ہے اور سال 2023ء کو انہوں نے اہم سال قراردیا ہے اس کے علاوہ ترکی کا ایک اور پلان ہے جو پلان 2030ء کہلاتا ہے۔
مغربی ممالک کے لئے مسئلہ ہے کہ ترکی اور سعودی عرب دونوں مسلم ممالک ہیں۔ ترکی کا دعویٰ اس پر بنیاد کرتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں سعودیہ پر ترکی کا قبضہ تھا۔ اس دوران ترکی نے بلاشبہ بڑا سرمایہ خرچ کرکے مدینہ منورہ کا سبز گنبد اور مسجد بنوائی تھی۔ اسی کے عشرے میں لیبیا کے رہنما معمر قذافی نے تجویز دی تھی کہ مکہ اور مدینہ شریف کو ویزا سے فری زیارت گاہیں قرار دی جائیں اور ان مقامات مقدسہ کو تمام مسلمانوں کے لیےفری قرار دیا ہے کیونکہ ہر مسلمان کے لئے سب سے مقدس جگہ ہے۔ اب اس مسئلہ کو اسلامی تنظیم دونوں ممالک کے مابین اپنا کردار اداکرکے حل کراسکتی ہے۔
یہ مسئلہ ہر مسلمان مرد وزن کا حساس مذہبی مسئلہ ہے اس پر مسلمان کسی بھی تک جا سکتا ہے۔ ترکی کے صدر کو اس قیاس کیا جا رہا ہے کہ امریکا خلیجی تعاون کے ممالک نے اس موقع پر یہ گرائنڈ کانفرنس کی ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن کا سعودی عرب کا دورئہ خطہ میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ فی الفور عرب دنیا میں کوئی اہم متنازع نہیں پھر سعودی عرب کا یہ اقدام کہ اسرائیل کے لئے سعودی عرب پر سے فضائی پابندی بھی ختم کردی ایک لحاظ سے اہم پیش رفت ہے۔
کانفرنس میں جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ بھی کسی اہم واقعہ کی روک تھام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اعلامیہ میں کہاگیا کہ
* پڑوسی ممالک ایک دوسرے کی آزادی اور سرحدوں کا احترام کریں۔
* خطہ کے ممالک دفاع کو مضبوط بنائیں۔
* مشرق وسطیٰ کو سرسبز بنایا جائے۔
* متبادل انرجی کو فروغ دیا جائے۔
* فلسطین ،یمن، سوڈان، ایتھوپیا، مصر اور افغانستان کے مسائل پر توجہ دی جائے۔
* ماحولیاتی مسائل کا مشترکہ مقابلہ کیا جائے۔
* خلیج کے خطہ کو مہلک جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے وغیرہ۔
مگر جدہ اور ریاض میں بڑے گروپ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ صدر جوبائیڈن تیل کی خریداری میں رعایت حاصل کرنے کے لئے یہ کر رہے ہیں۔ صدر جوبائیڈن اور ولی عہد شہزادہ الفیصل کے مابین تیل کی فراہمی رعایتی قیمت پر زیادہ بات ہوئی۔ جبکہ عرب صحافیوں کا ایک بڑا حصہ دعویٰ کر رہا ہے کہ امریکی صدرکا دورئہ سعودی صحافی جمال خوشیگی کی تین سال قبل ہونے والی موت کے سلسلے میں بات چیت کے لئے ہے۔
زیادہ صحافی اب بھی جمال خوشیگی کے تین برس قبل ہونے والے قتل کے مسئلے کو اہمیت دے رہے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ صدر جوبائیڈن اب بھی انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے ایجنڈے پر زور دے رہے ہیں۔
جہاں تک ترکی کی دھمکی یا بیانیہ کا تعلق ہے اس میں صدر امریکا نے بیان نہیں دیا بلکہ اس مسئلے کو میٹنگ کے ایجنڈے پر ہی نہیں رکھا گیا۔
صحافی جمال خوشیگی کے حوالے سے بتا رہے ہیں کہ امریکی صدر نے اس پر تاسف کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں میں اس بارے میں لاعلم تھا اور اپنے صدارتی معاملات میں میڈیا کو اس پر حیرت ہے کہ مشترکہ اعلامیہ میں مذکورہ مسائل اور تنازعات کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ سیدھا سادہ بیانات ہیں جبکہ تمام خلیجی ممالک کے سربراہ ممبر امریکی صدر کانفرنس میں موجود تھے اور سب نے لمبی لمبی تقریریں کیں تھیں۔
چند مبصرین کا کہنا ہے اگر امریکا کو تیل کی فراہمی قیمتوں میں رعایت درکار تھی اور سعودی عرب کے ولی شہزادہ فیصل سے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی یا عرب صحافی جمال خوشیگی کے قتل کے مسئلے پر بات چیت کرنی تھی یہ تمام مسائل کا تعلق صرف سعودی عرب اور ولی عہد شہزادہ فیصل سے تھا تو پھر تمام خلیجی ممالک کے سربراہان جدہ کانفرنس میں خصوصی طور پر شریک کیوں تھے اور اتنا اہتمام کیوں تھا۔ بعض کھوجی صحافیوں کی آراء ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے مگر صدر امریکا کا دورہ کامیاب رہا۔