پنجاب میں اتوار کو 20حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حریف حکمران جماعت مسلم لیگ نون کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر 15نشستیں جیت لی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نے اس بڑی فتح کے بعد پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت 186کا گولڈن ہندسہ بھی عبور کرلیا ہے، ان ضمنی انتخابات میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ کے 5وزرا سمیت 16منحرف اراکین صوبائی اسمبلی مسلم لیگ نون اور حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کی حمایت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے ضمنی انتخابات میں نہ صرف مسلم لیگ نون کے قلعہ لاہور، میں شگاف ڈال کر 4 میں سے 3 نشستیں جیت لی ہیں بلکہ تخت پنجاب بھی مسلم لیگ نون سے چھین لیا ہے، متذکرہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے آئندہ وفاقی حکومت اور قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، اور اگلے چند ہفتوں میں سیاسی، انتظامی اور دیگر اہم عہدوں پر بڑی اور اہم تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کی قیادت نے ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب میں اقتدار کی تبدیلی سے متعلق منصوبہ بندی پر کام شروع کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سپیکر صوبائی اسمبلی نے بائیس جولائی کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے، ڈپٹی سپیکر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ضمنی انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے وزارت اعلیٰ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی بائیس جولائی کودوسری مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوجائیں گے اور یقیناً چودھری پرویز الٰہی کے وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد چودھری برادران میں پیدا ہونے والے معمولی سیاسی اختلافات ختم ہونے سے پارٹی کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اپنے اراکین قومی اسمبلی کو کوئی بڑا قدم اٹھانے کی ہدایت کردیں، جس سے قومی سیاست میں بھونچال آنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کی قیادت کی ساری توجہ پنجاب میں انتقال اقتدار پر مرکوز ہے کیونکہ چودھری پرویز الٰہی کے تخت پنجاب پر بیٹھنے کے بعد مسلم لیگ نون اور گیارہ اتحادی جماعتوں کے وزیراعظم میاں شہبازشریف صرف اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ جائیں گے۔ اب پنجاب میں پی ٹی آئی کو ضمنی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہونے کے بعد جلد عام انتخابات ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت قومی اسمبلی کو اپنی مدت پوری کرنے کے موقف پر قائم رہتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آئندہ چند روز تک سامنے آنے کا امکان ہے۔
پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے سپیکر کے انتخاب اور صوبائی کابینہ کی تشکیل اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے تقرر و تبادلوں پر چودھری پرویز الٰہی سے مشاورت شروع کردی ہے، بائیس جولائی کو سپیکر چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی کا عہدہ خالی ہوجائے گا، سپیکر چودھری پرویز الٰہی اس عہدے پر اپنے قابل اعتماد رکن اسمبلی کو براجمان کرانا چاہتے ہیں جبکہ صوبائی کابینہ پی ٹی آئی کے اراکین پر مشتمل او ر مکمل بااختیار ہوگی۔
اب دیکھنا ہوگا کہ بائیس جولائی کو وزیراعلیٰ کا انتخاب سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق ہوتا ہے یا مسلم لیگ نون اس کی راہ میں کوئی آئینی و قانونی رکاوٹ پیدا کرتی ہے، اس وقت پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد 188ہوگئی ہے اور مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کی تعداد 178ہے جبکہ چودھری نثار علی کے لاتعلق ہونے اور مسلم لیگ نون کے چار اراکین کے مستعفی اور نااہل ہونے سے وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
پنجاب اسمبلی میں ضمنی انتخابات کے بعد عددی لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کو واضح برتری حاصل ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی نے ”پنجاب کی پگ“ چودھری پرویز الٰہی کے سرپر رکھی ہے، یہ ذمہ داری چودھری پرویز الٰہی کے لیے بہت بڑا امتحان ہے کیونکہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم عمران خان میں ہر لحاظ سے نمایاں فرق ہے، بہرحال چودھری پرویز الٰہی پرانے ، تجربہ کار اور منجھے ہوئے پارلیمنٹرین ہیں۔
اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ان کے سیاسی مشوروں پر عمل کیا تو انہیں ہرگز ایسے دن دیکھنے کو نہیں ملیں گے جیسے وہ اپریل اور ماضی قریب میں دیکھ چکے ہیں۔ قومی امید ہے کہ قومی سلامتی اور ملک کو سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں عمران خان چودھری برادران سے مشاورت کریں گے اور ان کے فیصلوں کو اہمیت دیں گے کیوں کہ چودھری برادران وضع دار اور جی دار ہیں خصوصاً اپنے وزارت اعلیٰ کے دوران چودھری پرویز الٰہی نے ان گنت ایسے منصوبے عوام کو دیئے جن سے آج بھی کروڑوں لوگ مستفید ہورہے اور سیاسی ناقدین بھی چودھری پرویز الٰہی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے۔
چودھری پرویز الٰہی کا خاصہ ہے کہ وہ تندو تیز باتوں اور سوالات کو بھی اپنے دھیمے لہجے اور صلح جو رویے سے زائل کردیتے ہیں اور انہوں نے ہر جمہوری اور مارشل لاءدور میں نہ صرف اپنی شناخت برقرار رکھی ہے بلکہ چوہدری پرویز الٰہی نے سیاست میں پنجاب کی اعلیٰ روایات،وضع داری اور سیاسی سوجھ بوجھ سے اپنا قد ہمیشہ بلند سے بلندتر کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب جب انہیں پنجاب یا مرکز میں اہم ذمہ داری ملی انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں اور سیاسی سوجھ بوجھ کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران عوامی منصوبوں کی بات کی جائے تو اس کی خاصی طویل فہرست ہے لیکن ایک بات تو ہے کہ وہ بیوروکریسی اور اراکین اسمبلی سے کام لینا جانتے ہیں، ایوان میں کوئی رکن اسمبلی ایسا نہیں جو اُن کی دل و جان سے عزت نہ کرتا ہو یا اُن کا کہا ٹال دے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اراکین اسمبلی ان کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی نے اگرچہ بعض سیاست دانوں کی طرح بیوروکریسی کے ساتھ سخت اور غیر مناسب رویہ نہیں رکھا لیکن وہ ہمیشہ پارلیمان کی بالادستی کی بات کرتے رہے ہیں، بلکہ ان کے سیاسی ناقدین کا بھی خیال ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بیوروکریسی سے کام لینا بخوبی جانتے ہیں۔ توقع ہے کہ چودھری پرویز الٰہی ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر صوبے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے پہلے سے بڑھ کر کام کریں گے، کیونکہ اس قلیل مدت میں انہیں بہت سے کام کرکے اپنے دور کی یادیں تازہ کرنی ہیں۔