• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں جمشید

ہمارے ارد گرد ایسے بہت سے نوجوان ہیں، جن کی تعلیمی کار کر دگی تو بہتر نہیں ہوتی، مگر دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں وہ بہت آگے آگے ہوتے ہیں۔ ایسے طلباء کی اکثریت زیادہ سے زیادہ بی گریڈ سے پاس ہوتی ہے، لیکن ان میں کئی خداد صلاحیتیں ہوتی ہیں، جن کا پتا آہستہ آہستہ چلتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کے بارے میں ان کے والدین اور اساتذہ کو بھی شکایت ہوتی ہے کہ وہ پڑھائی میں دھیان نہیں دیتے، نصابی سر گرمیوں میں بھی ان کی کار کر دگی اچھی نہیں ہوتی، ان کے والدین بھی ان کے مستقبل کے حوالے سے پریشان یا فکر مند ہی نظر آتے ہیں، کہ وہ کس طرح تعلیمی مدارج طے کریں گے، یا ان کا مستقبل روشن ہو بھی پائے گا یا نہیں۔

اس کے بر عکس ایسے طلباء، جواچھے گریڈز سے کام یاب ہوتے ہیں، ان کے دماغ میں بچپن ہی سے بٹھا دیا جاتا ہے کہ بڑا ہو کر ڈاکٹر یا انجینئر ہی بننا ہے، اگر انہیں آرٹ، کرافٹ سے دل چسپی ہوتی بھی ہے، تو اسے ختم کرنے یا کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے نوجوان بھی با دل نخواستہ اپنا شوق اور صلاحیت فراموش کر کے بس مشین کی طرح والدین کی خواہش پوری کرنے میں جت جاتے ہیں، جو ان کی تعلیم اور فطرت کے برعکس ہوتے ہیں۔ 

دوسری طرف وہ والدین بھی ہیں، جو سرے سے اولاد کو تعلیم دلواتے ہی نہیں ہیں یا ادھوری چھڑوا دیتے ہیں۔ اگر کسی بچے میں خداداد صلاحیتیں ہیں، تو انہیں دبانے کے بہ جائےنکھارنے کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔

کیا ہی اچھا ہو اگرہم اپنے نوجوانوں کے ٹیلنٹ کی قدر کریں، صرف سائنسی مضامین ہی نہیں آرٹس کے مضامین پڑھنے پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر ان کادل سائنسی مضامین پڑھنے میں نہیں ہے، پینٹنگ، گلوکاری، لکھائی کی جانب ہے، تو انہیں اسی مضمون کی تعلیم دلوائیں۔ یہ مت سوچیں یا کہیں کہ ہمارابچہ پڑھائی میں کمزور ہے، دل لگا کر نہیں پڑھتا وغیرہ وغیرہ ۔ ہو سکتا ہے آپ کابچہ اپنے پسندیدہ مضمون میں اتنا نام کمالے کہ صرف آپ کا ہی نہیں ملک و قوم کا بھی نام روشن کرے۔ 

وہ اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے ہی والدین ، اسکول اور باقی دنیا کے لیے باعث فخر بن جائے۔ دنیا بھر میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں ،جنہوں نے کم وآسان تعلیم یا درمیانہ گریڈ کے ساتھ اپنی قابلیت کی بنا پر کتنی شہرت، عزت اور دولت کمائی ہے۔ والدین اور اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ٹیلنٹ پر بھی خصوصی توجہ دیں ، نظرثانی کریں، بنیادی تعلیم لازمی دلوائیں، مگر ان پر تعلیم کا بوجھ نہ ڈالیں، ان کی قدرتی صلاحیتوں کو زنگ مت لگنے دیں، اگر وہ سائنسی مضامین میں کم نمبر یا گریڈ لے کرکسی اور شعبے میں اوّل آرہے ہیں، تو ان کا راستہ بدلنے کی کوشش مت کریں، بلکہ آگے بڑھنے دیں، ان کی رہنمائی، حوسلہ افزائی کریں، ان کے راستے کو آسان بنائیں۔

انہیں ان کے پسندیدہ شعبے کا انتخا ب کرنے دیں۔ تاکہ اس ملک و قوم کو بہترین ومنفرد کھلاڑی، لکھاری، شاعر، مقرر، فن کار، پینٹر وغیرہ مل سکیں، جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے کیوں کہ یہ لوگامن کے سفیر ہوتے جو اپنی مثبت ومنفرد پہچان سے دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے۔ اس لیے اگر آج ہمارے نوجوان آرٹس کے مضامین میں تعلیم حاصل کرناچاہ رہے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کیجیے، کیوں کہ بقول علامہ اقبال ،"زمانے کے انداز بدلے گئے، نیا ساز ہے، راگ بدلے گئے۔"