عثمان عامر
کھیلوں کا نام سنتے ہی صحت مند جسمانی سرگرمیاں ذہن میں آتی ہیں لیکن وقت‘ ٹیکنالوجی کی دوڑ نے کھیل کا مطلب اور اس کے حقیقی معنی اب تبدیل کر دیے ہیں جب کہ دیکھا جائے تو کھیل کود نہ صرف ہمارے جسم کو توانا اور تندرست رکھتے ہیں بلکہ ذہنی تناؤکے خاتمے کا بھی سبب بنتے ہیں۔ جسم چاق و بند اور دماغ تروتازہ رہتا ہے۔ لیکن افسوس کہ نئی نسل کی دل چسپی ان کھیلوں کی طرف سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ دور میں ڈیجیٹل گیمنگ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، خصوصا نوجوانوں کی ایک کثیر تعداداس سے متاثر نظر آرہی ہے۔
ان کی تمام تر دماغی صلاحیتیں اس گیم کی نظر ہوکر رہ گئی ہیں۔ یہ ایک آسیب کی طرح نئی نسل کو اپنے شکنجےمیں جکڑ رہا ہے۔ ایپل اور اینڈرائڈ پلے سٹور میں روزانہ سینکڑوں‘ ہزاروں کی تعداد میں نئی گیمیں ملنے لگیں اور وہ بھی بالکل مفت۔ یوں گیمنگ انڈسٹری رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں کی طرح ایک میگا انڈسٹری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ کہنے کو یہ ترقی کے عین عروج کا زمانہ ہے، انسان چاند پر جانے کے بعد اب سیاروں تک پہنچنے کو پر تول رہا ہے۔
ہر کوئی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہا ہوں لیکن جہاں اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے دنیا کو ان گنت فائدے دیے ہیں وہیں ڈیجیٹل گیمنگ نوجوانوں کے لیے ایک طرح سے ڈیجیٹل ایڈکشن بن چکی ہے۔جس طرح ڈرگ ایڈکشن سے انسان کی موت واقع ہوسکتی ہے، بالکل اسی طرح انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر بھی ہے اور اس میں انسان اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کر لیتا ہے، جیسے لاہور کے دو نوجوانوں نے حال ہی میں یہ قدم اٹھایا۔ آئیے ان خامیوں اور خرابیوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جو ڈیجیٹل گیمنگ سے پیدا ہو رہی ہیں اور ہمارا نوجوان طبقہ ان میں مبتلا ہوکر نہ صرف اپنی دماغی صلاحیتوں کو برباد کر رہا ہے بلکہ اپنی زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو رہا ہے۔
ذہنی تناؤ
ڈیجیٹل گیمنگ کا سب سے پہلا اور بڑا نقصان تو یہ ہے کہ نوجوان نسل اس میں مبتلا ہوکر ذہنی تناؤکا شکار ہوچکی ہے۔ اس کی لت نوجوانوں کے رویوں، رشتوں، معاشی و ثقافتی امور اور ان کی روز مرہ زندگی پر اس قدر اثر انداز ہوتی جارہی ہے کہ وہ گیم اور اپنی حقیقی زندگی میں توازن برقرار نہیں رکھ پارہے۔ ان کا رویہ منفی ہوتا جارہا ہے، چڑچڑا پن ان کی ذات کا حصہ بنتا جارہا ہے، بات بے بات چینخنا اور سامنے والے کو قصوروار ٹھہرانا ان کی عادت بنتی جارہی ہے۔
بہت سے ڈیجیٹل گیمز ایسے ہیں جو دو فریق باہمی مکالمے (conversation) کے ساتھ کھیلتے ہیں، لہذا گیم کے دوران کی گئی بات چیت نیند میں بھی دخل انداز ہوجاتی ہے اور گیم ایڈکٹ نیند میں انہیں باتوں کو دہرانا شروع کردیتا ہے۔پچھلی کھیلی گئیں گیمز کے بارے میں خیالات یا اگلے آن لائن سیشن کی توقع کے ساتھ دلچسپی رکھتے ہیں، گھریلو معاملات سے دور ہو جاتے ہیں، اور بلا خوف و خطر والدین سے جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔ڈیجیٹل ایڈیکشن نئی نسل کےلیے منشیات کے بعد ایک جدید نشہ ہے جو نسل نو کو کھا رہا ہے۔
وقت کا ضیاع:
اس کا ایک بڑا نقصان وقت کے ضیاع کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ گیم کھیلنے والا نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی گھنٹےاس کے لیے وقف کردیتا ہے، وہ اپنی تعلیم اور ضروری کاموں سے بھی غافل ہوتے جارہے ہیں۔ وہ وقت جو ملک و قوم کی ترقی اور فلاحی اور تعمیری کاموں میں لگنا چاہیے وہ ڈیجیٹل گیمنگ کی نذر ہورہا ہے۔
یہ لت نوجوانوں میں اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں بھی اس سے باز نہیں رہتے۔ تعلیمی اداروں میں بھی وہ یا تو اپنے گیجٹس پر گیمز میں مصروف رہتے ہیں یا پھر ان گیمز کے خیالات میں محو رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل گیمنگ کی مانگ دنیا میں روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ یوٹیوب پر وہ تمام چینلز جو سب سے زیادہ سبسکرائبرز ہوتے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد گیمنگ چینلز کی ہے۔
ناگہانی بیماریاں:
ڈیجیٹل گیمنگ سے پیدا ہونی والی بیماریاں شمار سے باہر ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے, اس سے مراد گیمنگ نسلِ نو کے رویے پر اتنا اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ گیم کھیلنے اور زندگی کے دیگر شعبوں میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ اس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ منفی نتائج کا سامنا کرنے اور مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود گیمز کو چھوڑ نہیں پاتے۔نوجوان نسل اس آسیب کی وجہ سے ایسی بیماریوں کا شکار ہوتے جارہےہیں جن کا چند سالوں پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔
سال 2018 میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے انسٹیٹیوٹ آف کینسر نے انتباہ جاری کیا تھا کہ، موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال کرنے والے بچوں اور نوجوانوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا عملی ثبوت جون 2022 کو USA میں پیش آنے والا واقعہ ہے ،جہاں techno blade نامی گیمر کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکراپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، جب کہ اس کی عمر صرف تئیس برس تھی۔
عجیب بات ہے کہ اس گیمر کی تھیم لائن تھی 'techno blade never dies، یعنی ٹیکنو بلیڈ کبھی نہیں مرسکتا۔ سال 2022 میں اب تک صرف لاہور میں ڈیجیٹل ایڈکشن سے 17 اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔ خود کشی اور قتل جیسی اموات کے علاوہ بھی نوجوان طبقہ ڈیجیٹل گیمنگ کی وجہ سے ایسے مہلک امراض کا شکار ہوتا جارہا ہے جس کا انجام صرف موت ہے جیسا کہ کینسر، برین ٹیومر وغیرہ۔
سماجی دوری:
بچے اور نوجوان ڈیجیٹل ایڈکشن کی وجہ سے نہ صرف جسمانی اور دماغی امراض کا شکار ہورہے ہیں بلکہ وہ سماج سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ گیم ایڈکٹ اپنے گیمنگ گیجٹ کو ہی اپنی کل کائنات سمجھتا ہے اور اس سے دور کرنے کی کوشش میں وہ دور کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ برطانیہ کے 16 سال کے ایلکس اور اس کے والدین کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
ایلکس گیم ایڈکشن کا شکار ہوگیا اور دن کا اکثر حصہ بلکہ پوری پوری رات ڈیجیٹل گیمنگ پر قربان کرنے لگا ،نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ ایلکس آٹزم جیسے مرض کا شکار ہوگیا۔ جب ایلکس کے والدین نے اسے گیم سے دور رکھنے کی کوشش کی تو بجائے اس کے کہ وہ گیم سے دور ہوتا، اس نے اپنے والدین سے ہی لڑائی جھگڑے شروع کردیے۔ یہ حال تنہا ایلکس کا نہیں ہے ،بلکہ ایسے ان گنت نامعلوم گیم ایڈکٹ ہیں جو ہر روز اس طرح کے مسائل سے خود کو اور اپنے عزیز و اقارب کو دوچار کر رہے ہیں۔
نیشنل سینٹر فار گیمنگ ڈس آرڈرز لندن کا ایک ادارہ ہے جن کی تحقیقات کے مطابق ڈیجیٹل گیمز کی لت میں خود کوبرباد کرنے والے زیادہ تر ٹین ایجرز ہیں، بعض نے تو گیمز کی اجازت نہ ملنے پر خود کشی کی دھمکی دی۔ آن لائن گیمنگ پر رابطے حد سے بڑھنے کی وجہ سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کے گھر چھوڑ کر جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ڈیجیٹل گیمنگ نہ صرف بیماریوں اور سماجی دوریوں جیسے بھیانک چہرے سامنے لارہاہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ یہ چہرہ انتہائی خوفناک ہے جس سے خاص طور پر ہماری نوجوان نسل متاثر ہورہی ہے اور بے دریغ اپنی جسمانی اور دماغی صلاحیتوں کو قدغن لگارہی ہے۔ 18 جون 2018 کو بی بی سی کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عالمی ادارہ ٔ صحت نے پہلی مرتبہ الیکٹرانک گیمز یا ویڈیو گیمز کھیلنے کی لت کو باقاعدہ طور پر ایک ذہنی بیماری تسلیم کر لیا ہے۔
ادارے نے ”گیمنگ ڈس آرڈر“ کو بیماریوں کی تازہ ترین فہرست میں شامل کیا ہے اور اسے موجودہ دور کا سب سے سے خطرناک نشہ قرار دیا ہے، جس کے بعد ویڈیو گیمز اور ڈیجیٹل گیمز بنانے والی کمپنیوں اور صنعتوں کی جانب سے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا اور اس فیصلے کو قابل اعتراض قرار دیا ، تاہم طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اگرچہ زیادہ تر گیمرز خود کو یا دیگر افراد کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں،جنہیں ان گیمز کی لت لگ جاتی ہے اور ان کا علاج کیا جانا چاہیے۔
اس وقت اس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ والدین، اساتذہ، تعلیمی ادارے اور حکومت مل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں اور بظاہر خوش نما نظر آنے والی اس ڈیجیٹل گیمنگ کے پیچھے چھپے خوفناک اور پرتشدد چہرے سے اپنی نوجوان نسل کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں تاکہ ہماری نوجوانوں کی صلاحیتیں ضائع ہونے کی بجائے ملک و قوم کی ترقی اور فلاح کے کام آئیں۔ قتل و غارت گری کی وجہ بننے والی ڈیجیٹل ایڈکیشن کو کم سے کم کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ہی مثبت سرگرمیاں کو فروغ دیا جائے تو بگاڑ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بہتری بھی لائی جا سکتی ہے۔