• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آتی جاتی رہا کرو

بہ سبب کاہلی اور کچھ مصروفیات کے باعث بھی جنگ سنڈے میگزین سے تعلق کچھ ٹوٹ سا گیا تھا۔ لیکن اب اتنے عرصے بعد بحال ہوا تو ہمیشہ کی طرح آج بھی میگزین اپنی مثال آپ ہی لگا۔ بلاشبہ، آپ کا جریدہ محض ایک جریدہ ہی نہیں، معلومات کا پورا خزینہ ہے۔ ویسے مَیں نے آج اتنے عرصے بعد صرف آپ کا ایک جملہ سُننے کے لیے خط لکھا ہے کہ’’آتی جاتی رہا کرو، اچھا لگتا ہے۔‘‘ (حرا اقبال، لطیف پارک، مریدکے)

ج: پہلے تم نے ہمارے کہے کی بڑی لاج رکھی ہے۔ سالوں کے وقفے کے بعد آ کے کہہ رہی ہو کہ ہمارا یہ کہنا کہ ’’آتی جاتی رہا کرو‘‘، اچھا لگتا ہے۔ اِتنا ہی اچھا لگتا ہے، تو پھر سچ مچ آتی جاتی رہا کرو۔

مزاح نگار بن سکتی ہیں

پچھلے ہفتے کا شمارہ پڑھا۔ میگزین کیا تھا، دُنیا جہان کی معلومات کا خزانہ تھا۔ رئوف ظفر’’آزاد پاکستان کی پہلی عید‘‘ سے جڑی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ ’’یہ مزدور بچّے، یہ مجبور بچّے‘‘ مختصر، لیکن پُراثر رپورٹ تھی۔ ’’میٹھی عید‘‘ کا اصل لُطف رائو شاہد اقبال کی تحریر پڑھ کے آیا۔ منور راجپوت کا مضمون ’’عید تو خواتین کی ہوتی ہے‘‘ پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔ شعری نگینوں سے سجا ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ شمارے کو چار چاند لگا گیا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں حاجرہ یامین سے بات چیت اچھی رہی، ’’آدمی‘‘ میں عرفان جاوید محبّت کی لازوال داستان سُنا رہے تھے، تو ڈائجسٹ میں قانتہ رابعہ کی تحریر ’’پہلی عید‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’منزلِ مقصود‘‘ پر پہنچے تو مسندِ اقتدار پر اسماء خان دمڑ رونق افروز نظر آئیں۔ ویسے اسماء تھوڑی سی کوشش کریں، تو ایک اچھی مزاح نگار بن سکتی ہیں۔ 

دُعا ہے کہ ان کا بی۔اے اعلیٰ ترین نمبروں سے پاس ہو جائے۔ اب تازہ شمارہ زیرِ مطالعہ ہے۔ منور مرزا کا ’’عالمی تنہائی اور اس کے اثرات‘‘ ایک پُرتاثیر مضمون ہے۔ بلاشبہ اگر کسی مُلک کی معیشت آزاد ہوگی، تب ہی وہ آزاد و خود مختار گردانا جائے گا۔ شفق رفیع کی ’’مدرز ڈے اسپیشل‘‘ میں ’’بچّے جیسے بھی ہوں، ماں کو پیارے، ایک جیسے ہیں‘‘ ماں کی محبّت و شفقت میں گندھی ایک اَن مول تحریر تھی۔ ’’انٹرویو‘‘ میں اے آئی جی عائشہ گل کی باتیں ہونہار لڑکیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فریحہ مبارک، ڈاکٹر عزیزہ انجم کے مضامین اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قانتہ رابعہ کی تحریر کا جواب نہیں اور ’’تیرے دَم سے گھر ہے، چاند کا ٹکڑا ماں…‘‘ ایڈیٹر صاحبہ کی خُوب صُورت تحریر تو بس چندے آفتاب و چندے مہتاب ہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر بڑے تینوں بچّے بھی شوٹ میں شریک ہوتے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی عمدگی سے مرتّب ہوا۔ آدمی، ناقابلِ فراموش، ایک پیغام، پیاروں کے نام اور آپ کا صفحہ، ہر سلسلہ ہی اپنی مثال آپ لگا۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں)

کسی اور سے کیوں لکھوایا گیا ؟

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو، جب تم کو میرا خط ملے گا، مَیں مونٹریال کے لیے روانہ ہوچُکا ہوں گا۔ پورے مُلک سمیت اخباری صنعت جس گمبھیر صورتِ حال سے دوچار ہے، اُس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بس، خوشی اِس بات کی ہے کہ جنگ کا ’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے قارئین کو بہترین مواد فراہم کررہا ہے اور یہ تمہاری بےمثال قائدانہ صلاحیت اور تمہاری اور تمہاری ٹیم کی اَن تھک محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بخدا تم لوگوں کی معطّر تحریروں کی خُوشبو میں سات سمندر پار بھی محسوس کرتا ہوں۔ منور مرزا، عرفان جاوید، منور راجپوت، عالیہ کاشف، شفق رفیع، رئوف ظفر، اختر سعیدی، ہمایوں ظفر، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، ڈاکٹر ناظر محمود، ڈاکٹراحمد حسن رانجھا، کنول بہزاد، رائو محمّد شاہد اقبال، آپ کا صفحہ کے خطوط نگار اور میرے سب سے پسندیدہ لکھاری محمود میاں نجمی وہ درخشاں ستارے ہیں، جنہوں نے تمہاری قیادت میں جنگ، سنڈے میگزین کو شہرت کے بامِ عروج پر پہنچادیا ہے، اور جن چند خطوط نگاروں کو مَیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں، اُن میں اسلام آباد کے معراج علی(مرحوم) اور گلبرک، کراچی کے پروفیسر مجیب ظفر انوار (مرحوم) کے نام بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ نیز، محمّد حسین ناز، چاچا چھکّن، مصباح طیّب، عافیہ رحمت، سیّد زاہد علی، نرجس مختار، ڈاکٹر اطہر رانا، بےبی گرل، پرنس افضل شاہین، صبیحہ عمّاد، ظہیر الدین غوری، روبینہ شاہد، ملک محمّد رضوان، رانا محمّد شاہد، اسماء خان دمڑ، عفّت زریں، ریحانہ ممتاز، نازلی فیصل، رونق افروز برقی، نادیہ نازغوری، شری مُرلی چند اور خادم ملک وغیرہ شامل ہیں۔ ایک بات پوچھناچاہتا ہوں کہ تمہارے جریدے میں سلسلے وار طویل مضامین لکھنے کا سلسلہ محمود میاں نے شروع کیا، تو کیاایک سے بڑھ کر ایک مضمون لکھنے والا لکھاری’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ نہیں لکھ سکتا تھا، تو پھر یہ سلسلہ کسی اور سے کیوں شروع کروایا گیا۔ زندگی رہی تو دوبارہ بات چیت ہوگی۔ کینیڈا سے خط بھیجنے کی کوشش کروں گا۔ (پروفیسر، سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج:آپ کا سوال اپنی جگہ، لیکن اس سے متعلقہ کچھ غلط فہمیاں (جنہیں بوجوہ ایڈٹ کیا گیا) سراسر غلط ہیں، بزرگوار محمود میاں نے اپنی علالت کے سبب خود لکھنے سے معذرت کی۔ نہ کہ ہمارےاسٹاف کے کسی فرد کی طرف سے کوئی سازش کی گئی۔ (پہلے ہی سابقہ وزیراعظم نے سازش، سازش کا راگ الاپ کے لگ بھگ ہر دوسرے شخص کو سازشی بنا ڈالا ہے، اُس پر آپ کے بے بنیاد خدشات، بلاوجہ کی بدگمانیاں) ہم پہلے بھی بارہا عرض کرچُکے ہیں کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے دروازے ہر اچھے لکھاری کے لیے ہمہ وقت کُھلے ہیں اور چوں کہ یہ جریدہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، تو کسی بھی تحریر کی عدم اشاعت سے، کسی کے ذاتی بغض و عناد کا ہرگز کوئی لینا دینا نہیں۔

بہت اچھا کیا

حسبِ روایت اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ موجود تھا، دوسرے میں نہیں، تو یہ غلط ہے۔ منور مرزا کا تجزیہ ’’عالمی تنہائی اور اُس کے اثرات‘‘ بروقت اور بے مثال تھا۔ ’’اَن مول بچّوں کی بے مثال مائیں‘‘، ’’مدرز ڈے اسپیشل‘‘ بلاشبہ بہت ہی اسپیشل تھا۔ اللہ پاک اِن خاص بچّوں کے والدین کو سلامت رکھے، آمین۔ پاکستان کی پہلی اے آئی جی، صنفی مساوات، عائشہ گل اورخواجہ فرید یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر کے انٹرویوز خُوب رہے۔ تھیلیسیمیا سے متعلق معلوماتی مضمون پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں کہ میرا جواں سال بھتیجا اسی مرض کے سبب ہمیں داغِ مفارقت دے گیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر ’’تیرے دَم سے گھر ہے چاند کا ٹکڑا ماں.....‘‘ سب پر بازی لے گئی۔ عائشہ جہاں زیب سے بطور ماں ملنا بہت اچھا لگا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں مجھ ناچیز کا پیغام بھی شایع فرمایا، شکریہ۔ مامے کا پُتر اور بے کار ملک کے اوپر تلے خطوط شایع ہوئے اور آپ نے دونوں کو کڑاکے دار جوابات دیئے، خصوصاً مامے کے پُتر کے خطوط کا سلسلہ ختم کرکے تو بہت ہی اچھا کیا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:جی، ہمیں پتا ہے، ہم نے بہت اچھا کیا، گرچہ یہ اچھا کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ خیر، دیر آید، درست آید۔ اور ہاں، یاد رہے آئندہ یہ اچھا کام ہر بدتمیز، بےہدایت شخص کے ساتھ بلا تخصیص ہوگا کہ سنڈے میگزین ایک فیملی میگزین ہے اور اس میں اخلاق سے گِری کسی بات کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔

اعصاب پر سوار ہو گیا ہے

سنڈے میگزین میں حضرت خواجہ مودود چشتی پر پہلی بار مضمون پڑھا، بلاشک و شبہ، محمّد احمد غزالی بہترین معلومات فراہم کررہےہیں۔ منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ میں موجود تھے اور بڑے طمطراق کے ساتھ۔ سرِورق کی ماڈل اچھی لگی۔ عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ تو گویا اعصاب پر سوار ہوگیا ہے۔ ہفتہ بھر بےچینی سے انتظار رہتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی پیاری پیاری تحریریں دل میں اُتر گئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد ’’پارو کے ابّا‘‘ کے ساتھ آئیں اور اچھی ہی لگیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات پُراثر تھے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی کا تبصرہ لاجواب ہوتا ہے۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی ایک اور معلومات افزا مضمون کے ساتھ موجود تھے۔ منور مرزا نے بہترین تجزیہ پیش کیا، تو منور راجپوت منفرد ’’فیچر‘‘ لیے آئے۔ عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ تجسّس سے بھرپور ہے، تو پیارا گھر بہت ہی پیارا۔ ’’متفرق‘‘ میں ایم بی تبسّم نے پارسیوں سے متعلق اچھی معلومات فراہم کیں، جب کہ خالد محمود درّانی کی دلیپ کمار سے سات گھنٹے کی ملاقات بھی پسند آئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:تمام تر تحریروں پر سرسری تبصرے کے بجائے اگر کبھی کبھار محض کسی ایک آدھ تحریر پر عمیق نگاہی سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے، تو نہ صرف اندازِ نگارش بھلا معلوم ہوگا، پڑھنے والوں کو ایک خوش گوار تبدیلی کا احساس ہوگا، بلکہ خود آپ کو بھی نئے سرے سے مہمیز ملے گی۔

عام آدمی کے لیے کیا خاص؟

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر اربوں روپوں کی خیرات، زکوٰۃ کا تذکرہ لائے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حافظ محمّد وقاص تنولی کا مضمون بھی بہترین تھا۔ ’’سنڈےاسپیشل‘‘ میں وحید زہیر نے کیمل لائبریری جیسےمنفرد آئیڈے کا ذکر کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نئی عالمی صف بندی کےمسائل سلجھا رہے تھے۔ ’’آدمی‘‘دل چسپ سلسلہ تو ہے، لیکن ایک عام آدمی کے لیے اس میں بھلا کیا خاص ہے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے، اس بار ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی بس گزارے لائق ہی تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی تحریریں پسند آئیں۔ اگلے شمارے میں اقصیٰ منور ملک کی صحابیات کی عملی خدمات سے متعلق تحریر خُوب صُورت تھی۔ انٹرویو’’ میں منور راجپوت نے پروفیسر حکیم مقیم مرسلین سے شان دار بات چیت کی ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر محمّد سہیل گل کا مضمون اور عالیہ کاشف کا ماہرِ امراضِ اطفال سے انٹرویو معلوماتی تھا۔ ’’آدمی‘‘میں تھوڑی سی دل چسپی وہاں محسوس ہوئی، جہاں استنبول میں جیوے جیوے پاکستان بجانے کا تذکرہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘میں افسانہ’’کرسی‘‘بہت پسند آیا۔اور’’ناقابل فراموش‘‘ کے واقعات سبق آموز تھے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

اپنے اپنے حصّے کی شمع

براہِ مہربانی سنڈے میگزین کے ذریعے مایوسی نہ پھیلایا کریں۔ ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر سے تو آپ نے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ اب ’’آپ کا صفحہ‘‘ بھی چھوڑنے کا سوچ رہی ہیں۔ اپنی ذمّے داری صحیح طریقے سے نبھائیں اور شُکر ادا کریں کہ آپ کو نوکری ملی ہوئی ہے، ہمیں دیکھیں، کب سے بے روزگار ہیں۔ پھر بھی جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں ہم سب کو اپنے اپنےحصّے کی شمع جلانی چاہیے تاکہ پورے مُلک میں روشنی پھیلے۔ اِس لیے آپ بھی اپنے رویّے پر نظر ثانی کریں۔ سنڈے میگزین کو مزید بہتر بنائیں۔ نیز، آپ کا صفحہ اور اسٹائل کی تحریروں کے ساتھ ہر ہفتے مزاحیہ کالم لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کریں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:بھئی، سچّی بات ہے، اِس وقت مُلک کے حالات، طرز حکومت، سیاست دانوں، مقتدر اداروں کی جو صُورتِ حال ہے، ہم تو کچھ زیادہ پُرامید نہیں ہیں، آپ اُمیدوں کی شمعیں روشن کیے بیٹھے ہیں، بہت اچھی بات ہے، وہ کیا ہے کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ‘‘ پر، ہم سے سفید پوشوں کے ٹوٹے بھرم اور خستہ حالوں کے پھوٹے کرم دیکھ کے امید و رَجا کی مالا جَپی نہیں جاتی۔ رہی بات طنز و مزاح کی، تو صبح و شام سیاسی درباری مسخروں کی جگت بازیوں کے بعد بھی بھلا کسی مزاح کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

عیدالفطر کا دیدہ زیب شمارہ ملا۔ رنگا رنگ سرِورق سے نظریں ہٹاکر صفحہ پلٹا تو اشتہارات سامنے تھے۔ آگےبڑھےتو ’’آزاد پاکستان کی پہلی عید‘‘ جیسے اچھوتے موضوع سے آنکھیں چار ہوئیں۔ واقعی، شاید ہی ہم میں سے کبھی کسی نے سوچا بھی ہو کہ آزادی کے محض چار دن بعد کس قیامت کی عید آئی ہوگی۔ جن پر وہ وقت گزر رہا تھا، اُن کے لیے تو ہر لمحہ قیامت ہی کا لمحہ ہوگا۔ ہم اپنے ربّ کا جتنا بھی شُکر ادا کریں، کم ہے کہ اس نے ہمیں ان الم ناک حالات سے دوچار نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کی آزمائش سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین۔ ’’رپورٹ‘‘ پڑھی، غربت اور جہالت کئی برائیوں کی جڑ ہے، جن میں سے ایک ’’بچّہ مزدوری‘‘ بھی ہے۔ یہی غربت اور جہالت بچّوں سے اُن کا بچپن چھین لیتی ہے۔ وقت سے پہلے اُنہیں بڑا کردیتی ہے اور پھر کوئی چاہے بھی تو اُنہیں ان کا بے فکر بچپن نہیں لوٹا سکتا۔ ’’میٹھی عید‘‘ نے سنّت کے مطابق عید گزارنے کا طریقہ بتایا۔ عید دسترخوان کافی مشکل سا لگا۔ پردہ بریانی کا تو عنوان پڑھ کر ہی ہنسی آگئی یعنی کہ پردہ اب بریانی کے لیے ہی رہ گیا ہے۔ آج کے اس دَور میں سب سے مشکل کام خواتین کا پردہ اور سنّت اعمال ہی ہیں۔ منور راجپوت نے خواتین خانہ کے حق میں پورا فیچر ہی تیار کردیا۔ ’’عیدالفطر:کھانے اور ہماری صحت‘‘ کو بہت مفید مضمون پایا۔ مضمون نگار کی بات دل کو لگی کہ اسلام کی جنگ اگر ہم تہذیب کے میدان میں ہارگئے، تو پھر عقائد ونظریات کے میدان میں جیتنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ کی تحریر بہت سوں کے جذبات کی عکّاسی ٹھہری، جس میں حالاتِ حاضرہ سے بے زاری کا اظہار بھی تھا اور عاقبت نا اندیشیوں کی کافر ادائوں کا کچھ ذکر بھی۔ ’’آدمی‘‘ کی ہیڈنگ بہت پسند آئی۔ واقعی حالات، ماحول اور واقعات کی کڑیاں ملنے ہی سے آدمی کا خاکہ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ زبردست تھا، ڈاکٹر سہیل اختر نے دَمے سے متعلق کئی خدشات دُور کیے اور غلط مفروضات کی بہت اچھے انداز میں وضاحت بھی کردی۔ محمود شام کے خواب، ہر پاکستان کے خواب ہیں، نہ جانے تعبیر کا عرصہ کتنا طویل ہے۔ مہ و سال درکارہیں یا صدیاں۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: ہم نے اِس مُلک کو جس حال تک پہنچا دیا ہے، مہ و سال میں تو کچھ سنورتا نظر نہیں آتا۔ پون صدی میں ایک چج (کام)کا لیڈر تو تیار کر نہیں سکے، خوابوں کی تعبیر کیا خاک ملے گی۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو،وہاں پھر ہر طرف مٹّی کے باوے ہی نظر آتے ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* اس سنڈے میگزین سے ایک ایسا خُوب صُورت سرپرائز ملا، جس کی قطعاً توقع بھی نہیں تھی اور وہ سرپرائز تھا، شفق رفیع کا مصطفیٰ علی سے متعلق آرٹیکل۔ بے حد شکریہ۔ آپ سے درخواست ہے کہ اسپورٹس سے متعلقہ ایسے آرٹیکلز آئندہ بھی شایع کرتی رہیے گا۔ (سائرہ شاہین، کراچی)

ج:جی سائرہ! یہ آرٹیکل آپ ہی جیسے کسی قاری کی فرمائش کے بعد لکھوایا گیا۔ ہماری پوری کوشش رہتی ہے کہ قارئین کی جریدے سے متعلق توقّعات جس حد تک پوری کی جاسکتی ہیں، ضرور کی جائیں۔

* یااللہ! عرفان جاوید کو اُن کے دوست سے ملا دے۔ آمین! (نام نہیں لکھا)

* میری ای میل ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شامل کرنے کا بہت بہت شکریہ! مجھے یہ جریدہ ہمیشہ ہی سے بہت پسند ہے۔ (صبا سلیم)

* سدا سلامت رہیں نرجس جی! آپ لاکھوں میں ایک ہیں۔ دل رکھنے والی، بھرم رکھنے والی، احساس کرنے والی، احسان کرنے والی۔ آپ نے ہماری کئی فرمائشیں پوری کرکے ڈھیروں دعائوں کا خزینہ لوٹا ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے، ہر اُس ایڈیشن کے لیے، جس سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے یا فن۔ آپ نے میری کئی ای میلز شایع کرکے میرے دل کو بہت خوشی پہنچائی ہے۔ ہم سنڈے میگزین کو باربار پڑھنے کا شغف رکھتے ہیں تو بس پوچھنا یہ تھا کہ جس جریدے میں میری کہانی’’آہ مس ناہید قریشی‘‘ شایع ہوئی تھی، اُسے نیٹ ایڈیشن میں ڈھونڈا، تو پورا جریدہ تو موجود تھا، مگر ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا صفحہ موجود نہ تھا، تو ایسا کیوں؟ (ڈاکٹر فوزیہ گل حسن قریشی)

ج:انٹرنیٹ ایڈیشن مرتّب کرنے والوں سے پوچھنا پڑے گا۔ غالباً ایسا نا دانستگی میں ہوا ہوگا۔

* ایک غزل ارسالِ خدمت ہے۔ کسی قریبی اشاعت میں شایع فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔ (معین فخر معین)

ج:قابلِ اشاعت ہوئی تو باری آنے پر شایع ہوجائے گی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk