• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1964 میں نمائش ہونے والی اس فلم میں ایک فرض شناس پولیس والے کو مرکزی خیال بناتے ہوئے مصنف و ہدایت کار نذیر صوتی نے ایک مقصدی اور موضوعاتی فلم بنا کر اس وقت اس رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی کہ فلم وہ میڈیم ہے، جس سے ہم اپنے معاشرے اور محکموں کی اصلاح کا کام میں لے سکتے ہیں۔ فلم ’’ہیڈ کانسٹیبل‘‘ میں پہلی بار ایک فرض شناس پولیس والے کی کہانی پیش کی گئی۔ 

پولیس اہل کار ہمارے معاشرے کا ایک اہم کردار ہے۔ پولیس اور عوام کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کرنے کے لیے مصنف و ہدایت کار نذیر صُوفی نے اس موضوع پر ایک بہت ہی اعلیٰ اور منفرد فلم بنائی، جس میں ایک پولیس والے کے مثالی کردار نے عوام اور پولیس کے درمیان دیواریں گرانے کے کام کیا۔ یہ یادگار کردار اپنے دور کے کریکٹر ایکٹر کمار نے بڑی خوبی سے ادا کیا ،ان کا شمار پاک و ہند کے سینئر ترین اداکاروں میں ہوتا تھا۔ اس سے قبل وہ متحدہ ہندوستان میں کئی فلموں میں یادگار کردار کر چکے تھے۔ 

اس فلم میں انہوں نے چوہدری سکندر دین، جو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں معمولی پولیس والے سے ہیڈ کانسٹیبل کے عہدے پر ترقی کرتا ہے، جب وہ اس عہدے پر فائز ہوتا ہے، تو مشکلات اور مصائب کا ایک طوفان اس کے گرد گھیرا ڈال دیتا ہے۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ نیکی، شرافت اور ایمان داری کی اعلیٰ مثال تھا۔ ہیڈ کانسٹیبل بنتے ہی پہلا سامنا اسے اپنی بیوی کا کرنا پڑتا ہے، جو اسے ہر وقت ایمان داری اور شرافت کے طعنے دیتی رہتی ہے۔ ایک بیمار بیٹی نے کہا بابا میں بیمار ہوں، مجھے وہ قیمتی دوائیاں لادیں، جو میرے مرض کا علاج ہوں۔ 

دوسری بیٹی نے بھی بوڑھے ہیڈ کانسٹیبل کی غیرت کو للکارا، تیسری بیٹی نے فریاد کی کہ بابا اس اندھے قانون کے نام پر تم کب تک میرے ہونٹوں کا تبسم اور آنکھوں کی شوخیاں چھینتے رہو گے، لیکن ایک باضمیر ہیڈ کانسٹیبل فرض اور محبت کے دوراہے پر کھڑا ہانپ رہا تھا۔ سماج کے گندے عناصر نے اس کے کانوں میں سرگوشیاں کیں، بوڑھے رشوت کیوں نہیں لیتا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ وہ جوان بیٹے کو عدل و انصاف کی دہلیز پھلانگ کر کے پھانسی کے تختے سے کھینچ لاتا، لیکن اس نے صرف اتنا کہا ’’بیگم اگر رشتوں کی موت سے انصاف کو زندگی مل سکتی ہے، تو مرنے دو میرے بچوں کو، تا کہ انصاف زندہ رہے، انسان زندہ رہے، یہ تھا وہ عزم اس بوڑھے ہیڈ کانسٹیبل کے اس کردار میں جو آنسوئوں اور آہوں کے درمیان مسکراہٹوں کے پُھول چُنتا رہا۔ فلم میں اداکارہ زیبا نے ایک دولت مند جرائم پیشہ شخص کی بیٹی نازو کا کردار ادا کیا، جو حیدرآباد سندھ میں میڈیکل کی طالبہ تھیں۔ 

اس کے اسمگلر باپ کا کردار فلم کے مصنف و ہدایت کار نذیر صُوفی نے نذیر پاشا کے نام سے کیا تھا۔ محمد علی، بہ طور ہیرو اداکارہ زیبا کے ساتھ، دونوں کی پہلی فلم تھی، جس میں دونوں کو رومانی مناظر میں دکھایا گیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے تین جوان بہنوں کے بھائی کا کردار کیا تھا۔ ایک بڑی بہن یاسمین کی شادی ایک جرائم پیشہ فرد سے ہوجاتی ہے۔ محمد علی نے اس فلم میں تاج نامی نوجوان طالب علم کا رول کیا تھا، جو فلم کی ہیروئن زیبا کے ساتھ میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ 

اس نے اپنی محبوبہ سے اپنی اصلیت چھپائی ہوئی تھی کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا ہے۔ یاسمین، محمد علی کی بڑی بہن اور اداکار حبیب کی بیوی کے کردار میں نظر آئیں، جب کہ اس فلم میں اداکار حبیب نے محمد علی کے بہنوئی کا رول کیا تھا۔ یہ کردار ایک جرائم پیشہ فرد کا تھا، کہانی کے ایک موڑ پر وہ اپنے سالے محمد علی کو بھی اپنے جرائم میں شریک کرنے پر زور دیتا ہے۔ سیما، محمد علی کی بہن کمار کی وہ بیٹی، جس کی شادی کے لیے بوڑھا ہیڈ کانسٹیبل دن رات پریشان رہتا ہے کہ وہ جہیز کی رقم کیسے جمع کرے گا۔ راجی، یاسمین اور سیما کی چھوٹی بہن، جو تپ دق کی مریضہ تھی، جسے گھر کے تمام لوگ باجی کہتے تھے۔ نِرالا، اداکارہ زیبا کا ملازم ہوتا ہے۔ ادیب، کانسٹیبل رحیمو پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ایک بد کردار اور راشی پولیس والا بن کر سامنے آیا۔

ہدایت کار اور مصنف نذیر صُوفی نے پُوری کہانی کو فلم کے مرکزی کردار ہیڈ کانسٹیبل کے ساتھ جکڑ کر رکھا، یہ حقیقت ہے کہ فلم کا یہ کردار بہت اہم تھا، لیکن دیگر کرداروں پر بھی تھوڑی سی توجہ دینی چاہیے تھی، باقی کرداروں کے ساتھ وہ انصاف نہ کرپائے۔ انہوں نے بہ طور اداکار بھی اس فلم میں وِلن کا رول کیا، جس پر باقی کرداروں سے زیادہ توجہ دی گئی۔ کہانی اپنی ان تمام خامیوں کے باوجود مقصدی اور اصلاحی تھی، لیکن یہ امر واقعی حیرت کُن ہے کہ ہیڈ کانسٹیبل کے کردار کو اس قدر نیک دکھانے کے باوجود فلم کے کسی ایک منظر میں بھی اسے نماز پڑھتے یا دُعا مانگتے ہوئے نہیں دکھایا گیا۔

اس فلم کے مکالمے بے حد معنی خیز اور خُوب صورت تھے، جو مقبول کے قلم کا کارنامہ تھے، تمام مکالمے قلم کے مناظر اور واقعات کے مطابق تھے، جن میں ادبی چاشنی کا رنگ بھی نمایاں تھا۔ منظرنامہ میں بہت مربوط اور دل کش تھا۔ فلم میں صدابندی کے فرائض سی منڈوڈی نے انجام دیے۔ نغمات اور مکالموں کی ریکارڈنگ لاجواب تھی۔ فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے، یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔ فلم کے تین گانے اپنے دور میں بہت مقبول ہوئے۔

فلم کی مختصر کہانی: چوہدری سکندر دین (کمار) جو پولیس میں ترقی کر کے ہیڈ کانسٹیبل بن جاتا ہے۔ بوڑھے ناتواں کندھوں تین بیٹیوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ اکلوتا بیٹا تاج (محمد علی) کی تعلیم کے اخراجات اور بیگم (ببو بیگم) کے طعنے اور باتیں اسے ہر وقت سوچوں اور پریشانیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ہیڈ کانسٹیبل کے بچپن کا دوست کریم (نذیر صوفی) ایک خطرناک اسمگلر تھا، اس کی اکلوتی بیٹی نازو (زیبا) ہیڈ کانسٹیبل کے بیٹے تاج کو پسند کرتی تھی۔ ایک روز ہیڈ کانسٹیبل اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنے محکمے کے ایک راشی پولیس والے رحیمو (ادیب) کو گرفتار کرتا ہے۔ 

رحیمو کی بیوی (روما) اس کی بیگم سے سفارش کروانے آتی ہے۔ بیگم جب ہیڈ کانسٹیبل کو رحیمو کو چھوڑنے کا کہتی ہے، تو وہ صاف انکار کردیتا ہے۔ شہر میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے پولیس کے محکمے کا سپرنٹنڈنٹ (حمید انصاری) ایک قتل کی تفتیش میں اپنے ساتھ ہیڈ کانسٹیبل کو بھی شامل کرتا ہے۔ ایک روز پولیس مجرموں تک پہنچ کر گرفتار کرلیتی ہے۔ ان جرائم پیشہ افراد میں ہیڈ کانسٹیبل کے داماد (حبیب) کے چھوٹے بھائی کی بھی گرفتاری ہوتی تھی۔ حبیب اور اس کا چھوٹا بھائی شیخ نور تو سیٹھ کریم کے گروہ میں کام کرتے ہیں۔ 

حبیب سیٹھ کریم کو اپنے بھائی کی ضمانت کے لیے کہتا ہے، تو سیٹھ کریم اسے مشورہ دیتا ہے کہ تمہارے سُسر نے اسے گرفتار کیا ہے، تم اپنی بیوی کو اس کے پاس بھیجو۔ یاسمین اپنے باپ کو اپنے دیور کی رہائی کا کہتی ہے، تو وہ صاف انکار کر دیتا ہے۔ حبیب یاسمین اور اپنی بچی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ رحیمو پولیس والا رہا ہو کر سیٹھ کریم کے کہنے پر ایک چال کے ذریعے ایمان دار ہیڈ کانسٹیبل کو رشوت کے جھوٹے الزام میں گرفتار کروادیتا ہے۔ تاج جب حیدرآباد سے کالج کی چھٹیوں پر گھر آتا ہے تو والد کی گرفتاری کا سُن کر بہت پریشان ہوتا ہے، گھر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے رکشا چلاتا ہے۔

ایک اور اپنے بہنوئی حبیب کے پاس آکر اپنی بہن کے ساتھ زیادتیوں کی فریاد کرتا ہے۔ حبیب اسے گمراہ کرتے ہوئے اسمگلنگ کے لیے مجبور کرتا ہے۔ حبیب کے بھائی کی ضمانت پر رہائی ہوتی اور پھر ایک نامعلوم قاتل اسے گولی کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ حبیب اس بات کو جانتا تھا کہ یہ کام سیٹھ کریم کے سِوا کسی کا نہیں ہو سکتا۔ وہ سیٹھ کریم کے پاس آتا ہے، دونوں میں اس بات پر تکرار اور لڑائی ہوتی ہے۔ 

دوران لڑائی سیٹھ گولی چلنے سے زخمی ہو جاتا ہے، جیل میں قید ہیڈ کانسٹیبل کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بیٹے تاج اور داماد نے سیٹھ پر گولی چلائی ہے اور فرارہوگئے ہیں، وہ محکمے سے درخواست کرتا ہے کہ اسے ایک دن کے لیے رہا کیا جائے، تا کہ وہ دونوں کو گرفتار کر کے قانون کے حوالے کرے گا۔ ایسا نہ کر سکتا تو محکمہ اسے برخاست کر سکتا ہے، اس شرط پر محکمہ ہیڈ کانسٹیبل کو ایک دستہ دے کر دونوں کی گرفتاری کے لیے بھیج دیتا ہے، جب ہیڈ کانسٹیبل حبیب کو گرفتار کرلیتا ہے، تو وہ اسے زخمی کر کے فرار ہو جاتا ہے۔ 

پولیس ہیڈ کانسٹیبل کو معطل کردیتی ہے، معطل ہیڈ کانسٹیبل اپنی ملازمت اور غربت کی بحالی کے لیے اپنے داماد اور بیٹے کی تلاش میں نکلتا ہے، سیٹھ کریم کو تاج اپنا خون دے کر بچا لیتا ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل جب اپنے دوست کو اس حالت میں دیکھتا ہے، تو اسے کہتا ہے رب کو یاد کرو۔ اس بات سے سیٹھ کریم بہت متاثر ہوتا ہے اور وہ مرنے سے پہلے اپنا بیان ریکارڈ کرواتا ہے کہ چوہدری سکندر (ہیڈ کانسٹیبل) بے گناہ ہے، رشوت کا جھوٹا الزام میں نے لگوایا تھا۔ 

گولی مجھ سے چلی تھی۔ حبیب اور تاج دونوں بے قصور ہیں۔ سیٹھ کریم کے بیان کی روشنی میں حبیب اور تاج پر قائم مقدمہ ختم ہو جاتا ہے۔ چوہدری سکندر کو دوبارہ عزت اور انعام کے ساتھ ترقی دیتے ہوئے محکمہ پولیس ہیڈ کانسٹیبل۔ اے ایس آئی کے عہدے پر فائز کرتا ہے، حبیب اپنی بیوی یاسمین اور بچی منی سے معافی مانگتا ہے۔ تاج اور نازو میں ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں۔

یہ یادگار فلم جمعہ 25ستمبر 1964 کو کراچی کے اے ون کلاس سنیما کیپٹل میں ریلیز ہوئی تھی، جہاں ہمیشہ سپر کلاس انگریزی فلمیں ریلز ہوا کرتی تھیں۔ ہائی جینٹری کا یہ پسندیدہ سنیما ہال تھا۔ یہ کریم سینٹر صدر کی گلی میں واقع تھا۔ کیپٹل کے ساتھ یہ سائیڈ کے طور پر ایروز سنیما پر بھی ریلیز ہوئی تھی، جس کی اپنی پوزیشن مرکزی سنیما کی تھی، کیپٹل جو کہ اس فلم کا مین تھیٹر تھا، وہاں یہ 2 ہفتے چلی جب کہ ایروز پر اس کے 5 ہفتے ہوئے تھے ۔ مجموعی طور پر اس فلم کو 22 ہفتوں کا بزنس ملا۔ 

حیدرآباد میں اس فلم کا مین تھیٹر نیو میجسٹک تھا، جب کہ لاہور میں یہ فلم 2 اکتوبر 1964 کو مین سینما وکٹری میں نمائش پذیر ہوئی تھی، جہاں اس نے 4 ہفتے کا بزنس کیا تھا۔ کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں تیار ہونے والی اس فلم کو راہ نو ادارے نے پروڈیوس کی تھی، جس میں 5 لوگ پارٹنر تھے۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید