آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اپنی تقرری کے بعد محکمہ پولیس سندھ میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پولیس حکام کو جو احکامات جاری کیے، ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیےخود بھی دورے کرنا شروع کر دیے ہیں۔
گزشتہ دنوں شہداد پور پولیس ٹریننگ سینٹر میں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے ساتھ تقریب میں شرکت کے بعد وہ اچانک سی پی ایل سی چیف زبیر حبیب کے ہمراہ ڈی آئی جی آفس بے نظیر آباد ڈویژن پہنچے، جہاں انہوں نے تین اضلاع، جن میں ضلع سانگھڑ، ضلع نوشہروفیروز اور ضلع شہید بینظیر آباد شامل ہے، یہاں کے پولیس افسران کے اجلاس کی صدارت کی۔
اس موقع پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ پولیس افسران منشیات جن میں چرس ہیروئن افیون اس کے علاوہ نشہ آور گٹکا مین پوری اور زیڈ اکیس شامل ہیں ،اس کی اسمگلنگ کو روکے اور اس دھندے میں ملوث منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے عملی اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں خاص طور پر ایسے منشیات فروشوں کی لسٹ بنائی جائے جو کہ ماضی میں اس کاروبار سے منسلک تھے اور اب بھی یہ کاروبارکر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اس کی بھرپور کوشش کی ہے کہ سندھ کو منشیات سے پاک کرکے دم لُوں گا اور اس سلسلے میں مجھے ایسے بہادر اور ایمان دار پولیس افسران کی ضرورت ہے جو کہ عبادت سمجھ کر اس کام کو کریں اور ان کے اس کام کو بھرپور طریقے سے ہر فورم پر سراہا جائے گا۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ نواب شاہ میں سیف سٹی پروجیکٹ آنے کے بعد اس تجربے کو سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی روبہ عمل لایا جائے گا۔ آئی جی سندھ کا مزید کہنا تھا کہ ایس ایس پی ،ایس ڈی پی اوز ،اور ایس ایچ او کی ذمے داری ہے کہ مقدمات کی تفتیش کی کوالٹی کو سدھارا جائے اور جب کیس تفتیش کے لیے ان کے پاس آئے، تو متعلقہ انچارج لیگل برانچ اس کو یقینی بنائیں کہ مقدمے کے تمام پہلو مکمل ہوں۔
ادھر آئی جی سندھ کے دورے کے بعد ڈی آئی جی عرفان علی بلوچ نے پولیس افسران کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ہر قسم کے جرائم جس میں موٹر سائیکل کار اور گھروں کی چوری کے علاوہ ڈکیتی اغوا برائے تاوان اور قتل کی وارداتیں شامل ہے۔ ان کی فوری طور پر ایف آئی آر درج کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی علاقے میں کوئی بھی جُرم ہو، اس کی فوری طور پر مقامی ایس ایچ او کی ذمے داری ہے کہ وہ ایس ایس پی کو اس سے مطلع کریں اور اس کے علاوہ متاثرہ فریق کو اس بات کی ترغیب دلائی جائے کہ وہ ایف آئی آر کا اندراج کرائیں۔
ایف آئی آر درج نہ کیے جانے سے اگر جرائم پیشہ شخص گرفتار ہوتا ہے اور اس کے بعد جب اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، تو چوں کہ اس کا پچھلا ٹریک ریکارڈ اس کیس کی وجہ سے صرف ایک جُرم کا ہوتا ہے، اس لیے وہ عدالت میں عادی مجرم کی بہ جائے اتفاقی مجرم کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی سزا میں تخفیف ہوجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر اچھی پولیسنگ نہیں ہو سکتی۔ ہمارے کریمنل سسٹم کی بنیاد ایف آئی آر ہے اور نوے فی صد اگر جرائم کی ایف آئی آر نہیں ہوتی، تو پھر کس طرح یہ جانا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں جُرم کی شرح کیا ہے۔
اس رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ علاقے میں کسی بھی قسم کا جرم ہواس کی فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے اور اس بات کی پروا نہ کی جائے کہ زیادہ ایف آئی آر درج ہونے سے پولیس پر کوئی اثر پڑے گا ۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم اس امر کو یقینی بنا رہے ہیں کہ جس علاقے میں زیادہ جرائم ہوں گے، وہاں پر پولیس نفری بھی بڑھائی جائے گی اور پولیس کو وسائل بھی مہیا کیے جائیں گے، تاکہ جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کیا جاسکے۔
تاہم جہاں تک محکمہ پولیس میں اصلاحات کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو عوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے اور لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کی تقرری کے بعد ایسا نظر آتا ہے کی سندھ پولیس میں انقلابی تبدیلیاں عمل میں آئیں گی اور اس کے نتیجے میں یہاں پھر ایک مرتبہ امن و سکون کا دور دورہ ہوگا۔
ادھر جہاں تک پولیس میں اصلاحات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پولیس کی بھرتی میں یہ اصول کار فرما رہا ہے کہ 350 افراد کی آبادی پر ایک پولیس کانسٹیبل کی تقرری کی جاتی ہے، لیکن اب یہ فارمولا کارآمد نہیں ہے، اب 350 افراد کی بہ جائے علاقے کے تھانے میں درج ایف آئی آر کے اعتبار سے پولیس کانسٹیبل کی بھرتی کی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ فرق پڑے گا کہ جس علاقے میں جُرم کی شرح زیادہ ہوگی، وہاں پولیس کی نفری بھی زیادہ ہوگی اور وہاں پر جرائم کو کنٹرول کرنے میں آسانی ہو سکے گی ،اس کے علاوہ کرائم رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے چور آزاد گھوم رہے ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ 74 سیشن میں یہ ہے کہ اگر کوئی پہلے سے سزا یافتہ ہے اور اگر دوبارہ وہ جُرم کر کے آئے گا، تو اس کو ڈبل سزا ہوگی، لیکن اگر اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں ہے تو پھر اس کو کیسے سزا ہوگی اور ایف آئی آر کے بغیر آپ کسی کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ ایف آئی آر درج کرائیں گے تو پھر انہیں عدالتوں میں جانا پڑے گا اور تھانوں کے دھکے کھانے پڑیں گے اور اس لیے پھروہ جُرم ہونے کے بعد بھی اور اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور مجرموں کو پہچاننے تک بھی ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کرتے تھے۔
ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ نسوانی آواز نکال کر لوگوں کو اغوا کرنے والے گروہ کا گھوٹکی میں بھی گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور یہاں سے بھی اس گروہ کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پولیس حکام کی جانب سے صوبے کے عوام الناس کو مطلع کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسی ٹیلی فون کال جس میں نِسوانی آواز میں کسی شخص کو ملاقات کے لیے بلایا جائے، اس کی فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی جائے، تاکہ اس گروہ کے افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔