• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ندا اشرف

نوجوانوں کی ہر دور میں قدر و قیمت رہی ہے۔ ان کی تعلیمی یا تربیتی عمل میں کہیں ذرا سی بھی کمی واقع ہو جائے تو معاشرہ اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کا معاشرہ بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال کی غمازی کر تا ہے۔اسلامی تہذیب و تمدن کو روندتے ہوئے آج کے بیشتر نوجوان آج خود کو دنیا کی تیز رفتار ترقی اور کامیابی کے حصول کے خواہش مند ہیں، مگر در حقیقت یہ نوجوان گمراہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ غیر اسلامی رسومات ، ذرائع ابلاغ کا بڑھتا ہوا منفی رجحان اور دشمنانِ دین کے اوچھے ہتھکنڈوں نےنئی نسل کی فکر وسوچ کوبڑی حد تک متاثر کیا ہے اوریوں یہ طبقہ گمراہی میں زیادہ مبتلا نظر آتا ہے۔

نوجوانی میں کسی کام کو کرنے کا جذبہ، ولولہ ،کسی معاملے کو عروج تک پہنچانے کی جراءت اور کسی حادثے سے مقابلہ کرنے کی عظیم قوت پائی جاتی ہے۔ علم النفس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانی کا یہ عرصہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اسے جو راہ مل جائے، وہ اسے اپنا لیتا ہے۔ آج بیشتر نوجوان پیروں فقیروں کے در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ روحانی بابا اور ماہرِ نجوم کی پیروی کرتے ہیں۔ جادو منتر، عملیات اور ایسے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں،مگر درحقیقت وہ اس کے باوجود فلاح حاصل نہیں کر رہے، کیونکہ اس کا سبب اللّٰہ کی ذات و صفات اور یکتائی پر ان کے ایمان کی کمزوری ہے۔

جدید دور کے نوجوان طبقے میں اس بنیادی امراور حقیقت کو واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے۔ مغربی دنیا کے زیر اثر حالات نے جس قدر تیزی سے کروٹ بدلی، اس سے نوجوانوں کا ظاہر و باطن بری طرح متاثر ہوا ہے، ان کی ذہنی، تعلیمی ، فکری ، اور اصلاحی کارکردگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری تعلیم ،ہماری ثقافت اور ہمارے میڈیا پر اپنی چھاپ اس قدر گہری لگا دی کہ ہماری اقدار کہیں دور پس منظر میں چلی گئیں ہیں۔ 

جدیدیت اور مادیت کی ہوس کچھ یوں ہوئی کہ نوجوان نسل اپنی بنیادوں سے قطعی نا بلد ہو کر دنیاوی ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند آگے بڑھنے میں مگن نظر آتی ہے اور اس کو ’’روشن خیالی‘‘کا نام دیا گیا ہے، جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے ،جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف، تناؤ، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔

نوجوانی کے قیمتی دور میں وقت سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ نوجوانی کی نماز قربتِ الٰہی کا ذریعہ اور وقت کی پابندی پیدا کرتی ہے۔ جدید دور کی اکثریت نماز جیسی اہم عبادت اور فرائض سے غافل ہے، اسی لیے ان کی زندگی منظم نہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ جہاں معاشرتی اصلاح کرتا ہے، وہاں نوجوانوں میں بیداری کا احساس اُجاگر کرتا ہے ہے۔ مگر آج کے مسلمان نوجوان طبقے نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے، بلکہ مغربی ذہنیت کے زیرِاثر اس امر کودخل در معقولات سمجھ لیا گیا ہے۔

اس کی آڑ میں نوجوان اپنے اوپر لاگو فرائض سے بھی دستبردار ہو رہے ہیں۔ جذبات سے مغلوب یہ نوجوان اکثر بے صبری کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں، پیسہ کمانے کے شارٹ کٹ راستے ، فراڈ ، ڈکیتیاں اور تعلیمی میدان میں ناجائز ذرائع کا استعمال ،نفرت ، عداوت، انتقام ، لالچ ، حسد جیسی برائیوں نے اِن نوجوانوں کو بگاڑ دیا ہے۔ معاشرے میں پھیلے طبقاتی نظام کا براہِ راست اثربھی نئی نسل پر ہو رہا ہے۔ عیاشیوں کے نام پر لٹائی جانے والی دولت ، فیشن ، نمائش ، خاص طور پر اپنی کمیونٹی میں شہرت اور چرچا کروانے میں پنا وقت برباد کررہے ہیں۔

اب یہ وقت مثبت رجحانات کی تعمیر اور مفید رویوں کی تشکیل کا ہےتاکہ اُمت مسلمہ کے یہ نوجوان عملِ خیر کے راستے کی طرف گامزن ہوں۔ نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ مقاصدِحیات کو پہچانیں، ہر حال میں اللّٰہ کی مدد پر یقین رکھیں اور وسوسوں و مایوسیوں سے بچیں، روزانہ اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنا احتساب کریں، زندگی کے ہر معاملے میں انصاف کریں، جو بڑے لوگ گزرے ہیں، اُنھیں اپنا آئیڈیل بنائیں، اپنے ارد گرد کی دنیا ، اس میں پائے جانے والے اَسرار و رموز ، حقائق پر غور و فکر کریں، شہرت حاصل کرنے اور امیر بننے کی منصوبہ بندی نہ کریں ، بلکہ اچھے انسان بنیں، کامیاب آپ خود ہو جائیں گے، آزادی کے نام پر بے حیائی سے بچیں، وقت، محنت، تعلیم، فرائض، عبادات، معاملات ، غرض ہر حق جو ان پر لاگو ہوتا ہے، اس میں انصاف کریں۔ وہی معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جن میں برائی اور بھلائی میں تفریق قائم رہے۔