• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحان احمد

’ریحان ہمارا پڑوسی ہے، اس کے والد اپنی مدّتِ ملازمت مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے، تو خاندان کی کفالت کی ذمے داری ریحان کے کاندھوں پر آگئی، کیوں کہ وہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اس لیے والد کی نوکری ختم ہونے کے بعدوہ گھر کا واحد کفیل تھا، اس کے لیےیہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کی جدوجہد میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ملازمت بھی اختیار کرے۔

اس حصول کے لیےاس نے کالج میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا اور پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے رجسٹریشن کروالی اور ملازمت کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگا لیکن دوسال کا عرصہ گزر چکا وہ اب تک بے روز گار ہے، اسے کوئی کام نہیں آتا، اس لیے ملازمت نہیں ملی، جب ا س کے والدبر سر روزگار تھے، تب ہی سے وہ ریحان کو تاکید کر تے تھے کہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی ہنربھی سیکھ لو، مگر اس وقت اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اب جب ضرورت پڑی ، تو اسے پریشانی کا سامنا ہے، اس دوسال کے عرصے میں اسں نے انٹر کرلیا اور اب بی کام کے سال اوّل میں ہے، لیکن ملازمت کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔

ریحان کا معاملہ کوئی انوکھا نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کےلاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مسئلہ ہے، ہر دور ہی میں نسل نو کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص متوسط طبقے کو۔ لاکھوں نوجوان، جو کسی بھی جگہ ملازمت کرکے یا اپنا کوئی کاروبار شروع کرکے نہ صرف اپنے خاندان کی خوش حالی کا باعث ہوسکتے ہیں بلکہ قومی ترقی میں بھی معاون ہوسکتے ہیں۔

وہ اپنی بے روزگاری کا ذمے دار ملک، حکومت یا معاشرے کو ٹھہراتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ان کا یہ الزام درست ہے ؟بے روزگاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال بلا شبہ افسوس ناک ہے، لیکن اس پر افسوس کرنے اور دوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے بہ جائے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے آس پاس نظر ڈالیے، محلے اور بازار میں آپ کو لاتعداد ایسے نوجوان نظر آئیں گے، جو یا تو بالکل اَن پڑھ ہیں یا انہوں نے دو چار جماعتیں ہی پڑھی ہیں، لیکن یہ لوگ دکانوں، کارخانوں، ورک شاپ او ر بازاروں میں مختلف نوعیت کے کام کرتےہیں۔ 

گویا اَن پڑھ یا معمولی پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ان کو روزگار میسر ہے،تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاری کا رونا کیوں روتی رہتی ہے؟وجہ صاف ظاہر ہے، وہ لوگ نا خواندہ ہونے کے باوجود ہنر مند ہیں اور آپ صرف تعلیم یافتہ یعنی ملک میں ہنر مندوں کی کمی ہے۔ اگر اس ملک نوجوانوں کی اکثریت ہنر مند ہو، تو بے روزگاری کی شرح میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔ 

ڈگری کی اہمیت اپنی جگہ ، لیکن تعلیم کے ساتھ ہنر آپ کی قابلیت میں چار چاند لگا سکتا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیے کہ جب تک کوئی کام نہیں آتا، وہ مشکل لگتا ہے اور جب آجائےتو مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ کام سیکھنے کے لیے اپنے رجحان اور پسند کو ضرور اہمیت دیجیے۔ ممکن ہے آپ تکنیکی نوعیت کے کاموں میں دل چسپی رکھتے ہوں۔ اس صورت میں آپ کو الیکٹریشن یا اس سے ملتا جلتا کام سیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کو دفتر ی کام پسند ہے، تو کمپیوٹر کورسز وغیرہ کرلیں، تاکہ جزوقتی ملازمت کر سکیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کام سیکھنے کے کئی طریقے ہیں۔

کوئی بھی ہنر سیکھنے کے لیے لیں، کالج ، یونیورسٹی کے بعد کچھ وقت نکال کر کوئی کورس کریں، مثلاََ کسی فنی تربیت کے ادارے میں کوئی تکنیکی ہنر، مثلاً ڈرافٹس مین یا ویلڈر یا کسی اور ہنر کی تربیت مکمل کریں۔ ایسے اداروں کی فیس بھی زیادہ نہیں ہوتی ، مگر فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔

وظیفے کے ساتھ کام سیکھنایا اپرنٹس شپ ٹریننگ کام سیکھنے کا یہ طریقہ ایسا ہے، جہاں کام بھی سکھایا جاتا ہے اور وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میٹرک یا انٹرکے امتحان کے بعد طویل تعطیلات ہوتی ہیں۔ اکثر نوجوان یہ قیمتی وقت بالکل ضائع کردیتے ہیں۔ اس وقت سے فائدہ اٹھایئے اور خود کو مستقبل کے لیے تیار کیجیے۔

پہلے اپنے عزیزوں، والد یا بڑے بھائیوں کے دوستوں میں سے ایسے افراد تلاش کیجیے جو کسی تجارتی یا صنعتی ادارے میں ذمےدار عہدے پر ہوں۔ ان سے رابطہ کیجیے اور اپنی خدمات پیش کیجیے کہ میں آپ کے دفتر/فیکٹری میں بلا معاوضہ کام کرنا چاہتا ہوں، بعد میں کسی بھی مرحلے پر جب آپ سمجھیں کہ میں آپ کے ادارے کے لیے مفید ثابت ہورہا ہوں، تو آپ مجھے باقاعدہ ملازمت دے دیں۔ 

اگر آپ اپنے کسی ٹیچر کے توسّط سے جائیں اس کے ساتھ ساتھ اپنی سی وی تیار کریں اور کسی ادارے میں جمع کروادیں۔ ہر دفتر/فیکٹری کے مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی خاص شعبہ پسند ہے ،تواپنی دل چسپی بت دیں تاکہ آپ بہتر طور پر کام سیکھ سکیں ، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کو اپنی ضرورت کے پیشِ نظر کسی دوسرے شعبے میں بھیجیں، لیکن اس میں منہ بسورنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو جہاں بھی تعینات کیا جائے، وہاں ایک طالب علم کی طرح کام کو بہتر طور پر سمجھیں کرنے کی کوشش کریں، ساتھیوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئیں۔

ہمیشہ خود کو سیکھنے پر آمادہ رکھیں اور وقت کی پابندی کا خیال رکھیے۔اس طرح، آپ تقریباً ایک سال کی مدت میں کوئی بھی کام اس حد تک ضرور سیکھ جائیں گے کہ خود اعتمادی کے ساتھ انجام دے سکیں گے۔ یاد رکھیے کہ ہر کام اہم ہوتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر کا کام بہ ظاہر معمولی دکھائی دیتا ہے، لیکن اگر آپ کو کسی ادارے کے پی بی ایکس بورڈ پر بٹھا دیا جائے ،تو آپ کے لیے کام کرنا اس وقت تک ناممکن ہوگا جب تک آپ اسے سیکھ نہ لیں، یقین کیجیے کہ یہ کام آپ ایک ماہ میں بھی سیکھ سکتے ہیں اور چند دن میں بھی۔

یہ صرف طالب علموں کے لیے ہی مفید نہیں ہے بلکہ ان تمام بے روزگار نوجوانوں کے لیے بھی مؤ ثر ہے، جو کئی کئی مہینے اور بعض اوقات کئی سال بے روزگار رہ کر وقت ضائع کردیتے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ یا تو کام نہ جاننا ہوتا ہے یا کام پر عبور نہ رکھنا۔ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہوگا کہ آپ چند ماہ کسی ادارے میں بلا معاوضہ کام کریں،کام پر عبور حاصل کریں۔

کئی نوجوان یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں تعلیم کے ساتھ کام سیکھنے کے لیے وقت نہیں ملتا، لیکن کوئی بھی ہنر سیکھنے کے لیے دن کے 2,3 گھنٹے کافی ہوتے ہیں، جو آپ بآسانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کم وقت صرف کرکے نکال سکتے ہیں۔ موسم گرما کی تعطیلات، کام سیکھنے کے لیے بہترین وقت ہوتا ہے۔ آپ کے گھر کے نزدیک اگر کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں آپ کو بلا معاوضہ ہنر سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے تو کام سیکھنے کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔