السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کب یہ مسند ملے گی؟
اُمید ہے، جنگ، سنڈے میگزین کی ٹیم ایمان و صحت کی بہترین حالت میں ہوگی۔ یکم مئی کے شمارے نے ’’عید مبارک‘‘ کہا، تو لگا جیسے کوئی آگیا ہے، دل کی دنیا آباد کرنے۔ ’’عیدالفطراسپیشل‘‘ میں رئوف ظفر نے آزاد پاکستان کی پہلی عید کا تذکرہ کر کے غم زدہ کردیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں خواجہ تجمّل حسین کی تحریر ’’یہ مزدور بچّے، یہ مجبور بچّے‘‘ بھی افسردہ کرگئی۔ رائو محمّد شاہد اقبال کا پیغام بہت اہم تھا، بےشک عیدین رشتوں کی بحالی کا بہترین ذریعہ، اپنے پیاروں کو دوسرا موقع دینے کا شان دار بہانہ ہیں۔ منور راجپوت میرے پسندیدہ قلم کاروں میں سے ہیں، اُن کی تمام ہی تحریریں زبردست لگتی ہیں، لیکن ’’عید تو خواتین کی ہوتی ہے‘‘ پڑھ کر یوں لگا، جیسے وہ میری اور میری ممّی کی دُکھ بَھری داستان سنارہے ہیں۔ ہائے! اب تو مَیں خواب میں بھی کچن سمیٹ رہی ہوتی ہوں، سوچتی ہوں، جب مَیں چھوٹی تھی، تو ممّی اکیلے یہ سب کیسے کرتی ہوں گی۔ حامد فیاض، کی تحریر ’’عیدالفطر، پُرتکلف کھانے اور ہماری صحت‘‘ بھی مفید ترین تحریر تھی، لیکن کسی کے کانوں پر جوں رینگے تو بات ہے۔ ’’کہی اَن کہی ‘‘میں حاجرہ یامین کی باتیں مزے کی تھیں۔ مرکزی صفحات پر ہماری پیاری نرجس جی کی مختصر، مگر پُراثر تحریر تھی، جس نے موجودہ سیاسی صورتِ حال کا جامع نقشہ کھینچا، تو عید کے موسم کے مختلف رویّوں کی ترجمانی بھی کی۔ آپ کی مزید تحریروں کا بھی بےصبری سے انتظار ہے۔ اور اُمید ہے یہ انتظار جلد ختم ہوگا، کیوں کہ آپ ہماری خوشی کا پورا خیال رکھتی ہیں۔ عرفان جاوید کا ’’آدمی‘‘ ہیڈنگز پڑھنے سے اچھا لگتا ہے، لیکن وہ کیا ہے ناں کہ میں تو سلسلے وار مضامین تب پڑھتی ہوں، جب وہ مکمل ہوجاتے ہیں، تو ابھی پڑھنا شروع نہیں کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحات میں قانتہ رابعہ بہترین اضافہ ہیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ تو میرے لیے عید کا تحفہ ثابت ہوا کہ میرے پیغام کو ہائی لائٹ کیا گیا تھا، مگر مرتّبہ کا نام پڑھ کر سوچا کہ نہ جانے نرجس جی نے میرا پیغام پڑھا بھی ہوگا یا نہیں؟؟ اخیراً آپ کا صفحہ پر آئی تو مسندِ اعزازی پر اسماء خان دمڑ کو براجمان دیکھ کے دل میں خیال آیا، ہائے! نہ جانے کب یہ مسند مجھے ملے گی؟ اور آپ کو پتا ہے، میں اکثر تصوّر ہی تصوّر میں دیکھتی ہوں کہ آپ اپنے آفس میں براجمان ہیں۔ سامنے بھانت بھانت کی تحریروں، خطوط کا انبار لگا ہے۔ کسی تحریر کو دیکھ کر آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے، تو کسی کو دیکھ کر ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں، ویسے آپ کےجوابات بہت مناسب اور سچ کے ترجمان ہوتے ہیں، جو لوگ تہذیب کا دامن تھام کر مثبت تنقید کرتے ہیں، آپ اُن کو بھرپور توجّہ دیتی ہیں، ہاں، جو بدتہذیبی سے کام لیتے ہیں، تو پھرآپ بھی اُن سے کوئی رعایت نہیں برتتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ بہت سچّی اور کھری ہیں۔ (ایمن علی منصور)
ج: ایک بار تو مسند کی حق دار ہوچُکی ہو۔ آئندہ بھی ذرا مختصر اور جامع لکھوگی تو مسندیں، وزارتیں، صدارتیں سنبھالتی رہو گی کہ یہ کوئی کرسئ اقتدار تو ہے نہیں کہ ایک نااہل، نالائق اُترے، تو دوسرا نکمّا، بددیانت چڑھ بیٹھے، یہ مسند تو سو فی اہلیت پر ملتی ہے۔ جس ہفتے جو اہل ہوگا، وہی راج کرےگا۔
’’ جھڈو ‘‘ کا نام سربلند ہوا
بجلی کی مسلسل آنکھ مچولی، تپتی گرم ہوا کے تھپیڑے، مٹّی کے بگولے اور آگ اُگلتا سورج، یہ ہے ہم جھڈو والوں کی داستانِ حیات۔ خیر، منور راجپوت (محمّد احمد غزالی) اللہ کے نیک بندوں کے تذکرے میں اس بار زیرِ بحث لائے، حضرت احمد کبیر رفاعیؒ کے حالاتِ زندگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان اللہ کے نیک بندوں ہی نے خلوصِ نیّت سے اسلام کے پیغام کو ہر دَور میں عام کیا۔ منور مرزا کے سیاسی پارے کا نچوڑ تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں خلوصِ نیّت سے اپنی اپنی ذمّے داریوں کا احساس کریں۔ عالیہ کاشف ’’ورلڈ بلڈ کینسر ڈے‘‘ کے حوالے سے ماہرِ امراضِ خون، ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری سے بات چیت کر رہی تھیں۔ ’’فیچر‘‘ میں قلم پر زبردست دسترس رکھنے والے منور راجپوت ’’مکان کرائے پر خالی ہے‘‘ کے ساتھ ایک بار پھر فارم میں نظر آئے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف نے ماڈل ربائل خان کو سامنے پاکر گویا دلی مکالمہ کرڈالا۔ عرفان جاوید ’’گیبرئیل‘‘ کی نویں قسط کے ساتھ آئے۔ اقصیٰ منوّر ملک بھی مسلسل آ رہی ہیں اور خُوب چھا رہی ہیں، اس بار ’’سعی‘‘ کو زیرِ قلم لائیں۔ ایم۔ بی۔ تبسّم ’’پارس سے فارس تک…‘‘ کے عنوان تلے بہت کچھ بتلا گئے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں ہی واقعات سبق آموز تھے۔ نئی کتابوں پر پرانے لکھاری اختر سعیدی کی موجودگی دل شاد کرگئی۔ اُن کے الفاظ ہی کی کرشمہ سازی ہے کہ اس صفحے پربھی قوسِ قزح کے رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔ لوجی، پھر جھڈو کا نام سربلند ہوا، نور الہدیٰ محمّد اسلم نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا میدان مار لیا۔ بہت بہت مبارک ہو سب کو کہ میرا سوہنا قصبہ جھڈو خُوب نام وَر ہورہا ہے۔ (ضیا الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: جی ہاں، اپنا قصبہ ہی بجلی کی مسلسل آنکھ مچولی، تپتی گرم ہوا کے تھپیڑوں، مٹّی کے بگولوں اور آگ اُگلتے سورج کے باوجود ’’سوہنا‘‘ لگ سکتا ہے۔ اور اتنے سوہنے قصبے کی نام وَری پر مبارک باد تو بنتی ہی ہے۔
بریک کی اشد ضرورت تھی
مُلکی امورِ سیاست کے تجزیہ نگار، قلم کے دَھنی اور عالمی سیاسی شطرنج کے مُہروں کی ہر چال کے جان کار، ہمارے، آپ کے جانے پہچانے منور مرزا تارکینِ وطن کو یورپین ممالک میں تیزی سے بڑھتی قوم پرستی کی لہر کے مضرّات سے آگاہ کر رہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ (تذکرہ اللہ والوں کا) میں ایک عُمدہ تحریر نظر نواز ہوئی۔ ’’متفرق‘‘ میں ایم۔بی تبسّم نے ’’پارس سے فارس تک…‘‘ میں ایران کی بدلتی تہذیبوں اور بادشاہتوں کا تاریخی احوال رقم کیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں معروف ماہرِ امراضِ خون، ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے ’’ورلڈ بلڈ کینسر ڈے‘‘ کے موقعے پر اہم، مفید معلومات فراہم کیں۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت مکان مالکان اور کرائے داروں کا ذکرِ خیر کر رہے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی تحریریں بہت ہی پسند آئیں۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ سے متعلق بس اتنا کہ عمومی افراد نے’’جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر لکھ بھیجیں‘‘ کا کچھ زیادہ ہی ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیا تھا، تو اب یہاں بریک لگانے کی واقعی اشد ضرورت تھی۔ (مبارک علی ثاقب، راول پنڈی)
ج: ہمارے فیصلے پر مُہرِ تصدیق ثبت کرنے کا شکریہ۔
رواں، عام فہم سفرنامہ
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے صفحات میں مختلف امراض سے متعلق ماہر معالجین کے مضامین خُوب ہوتے ہیں، اس بار بھی انٹرویو بہت خاص تھا۔ منور مرزا کا شان دار تجزیہ بھی پڑھا۔ سلسلہ ’’آدمی‘‘ اچھا جارہا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین خاص الخاص لگے۔ مسلمان سائنس دان، جابربن حیان کے حوالے سے مضمون اہم تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحات بھی اچھے انداز سے مرتّب کیے گئے۔ چین کا سفر نامہ بہت رواں اور عام فہم انداز میں لکھا جارہا ہے کہ قاری سفرنامہ نگار کے ساتھ ساتھ سفرکرتا رہتا ہے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تو کیا ہی بات ہے۔ ممکن ہو تو مفتی طارق مسعود اورسرفراز شاہ کے انٹرویوز بھی کروائیے۔ (محمّد عثمان، شاہ پور چاکر)
ج: دونوں نام ہماری فہرست میں موجود ہیں، جلد انٹرویوز کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب چھوڑ چھاڑ ساتھ ہولیے
’’موتی مالا‘‘ جیسے میگزین کی ورق گردانی شروع کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں داتا کی نگری، لاہور میں مدفون، حضرت داتا علی ہجویریؒ پر شان دار نگارش پڑھنے کو ملی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ گنج بخشِ فیضِ عالم، مظہرِ نورِخدا…ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را راہنما۔ ادبی شاہ کار، عرفان جاوید کی تحقیقی و تخلیقی کاوش نے بھی اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ سلمیٰ آپا نے تین سَکھیوں کے ہم راہ سیر کے بعد، اب چِین کے سفر کی دعوت دی، تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ فوراً ہی اُن کے ساتھ ہولیے کہ جو مزہ اُن کے قلمی سفر کی رُوداد میں ہے، وہ تو اصلی سفر میں بھی نہیں ملتا۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں عالیہ کاشف نے گوہر رشید سے بھی کیا کچھ اگلوا ڈالا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی تزئین وآرائش کا بھی جواب نہ تھا۔ سچ کہیں تو یہ جریدہ آپ کی محنتوں کا آفتاب ہے۔ جو بھی کچھ ہے، خدا کی قسم لاجواب ہے۔ (نازلی فیصل ،ڈیفینس، لاہور)
ج:آپ سے دست بستہ التماس ہے، خدارا! حاشیہ، سطرچھوڑ کر لکھنے کی عادت ڈالیں۔ تحریر شایع نہ ہو تو سب کے رونےدھونے شروع ہوجاتے ہیں، مگر ہماری ایک چھوٹی سی درخواست آپ لوگوں کے پلّےنہیں پڑتی کہ کسی’’گچ پچ‘‘تحریرکااندازِ نگارش خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، وہ لائقِ اشاعت نہیں ہوتی کہ جو تحریرپڑھنے ہی میں نہ آئے، شایع کیسے کی جاسکتی ہے۔
ایک کے بعد ایک مُلک…
سرِورق پہ ماڈل آنکھیں ترچھی کیے کھڑی تھی، لیکن مجال ہے، جو کسی ایک بھی تصویر میں مُسکرائی ہو۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ وہ شاہ کار سلسلہ ہے، جس سے ہمارے علم میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اور مجال ہے، جو منور مرزا کی ایک بات بھی میرے پلّے پڑتی ہو۔ ہاہاہا…‘‘ گوہر رشید کاتو مَیں نے صرف ڈراما ’’مَن مائل‘‘ ہی دیکھا تھا، جس میں وہ مایا علی پر تشدد کرتے تھے اور یہاں فرمارہےہیں کہ عورت پرتشدّدبرداشت نہیں کرسکتا۔ بندہ پوچھے، تو پھر ایسا کردار ہی کیوں قبول کیا۔ دوست، دوستی والا سوال آپ نے تو پوچھا نہیں، لیکن مَیں نے خود ہی اندازہ لگالیا کہ کبریٰ خان کے ساتھ اُن کی بہت دوستی ہے، کیوں کہ تصویر میں گتھم گتھا ہوکے بھی بتیسی نکلی نظر آرہی تھی۔ ہاہاہا… ہائے شفق رفیع کتنی ذہین اور قابل ہے۔ قسم سے مَیں تو حیران ہوجاتی ہوں، چھوٹی سی دھان پان سی لڑکی اور اتنی عُمدہ تحریر۔ عرفان جاوید اب اسحاق نور کے ساتھ موجود ہیں۔ بھئی، یہ صاحب کہیں ٹک کے بھی بیٹھتے ہیں۔ اور آپ کو پتا ہے کہ میں سلمیٰ اعوان کا نام کتنی دیر تک دیکھتی رہتی ہوں۔ (کئی بار ماشاء اللہ کہتی ہوں) اور سوچتی ہوں کہ یااللہ! ایک یہ خاتون ہیں، جو ایک کے بعد ایک مُلک دیکھے جارہی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اپنا کوئٹہ شہر بھی پورا نہیں دیکھا۔ ہاہاہا… وہ کیا ہے ناں کہ مجھے سیروسیّاحت کا بےحد شوق ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ہمیشہ پیارا ہوتا ہے۔ مضمون ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘پڑھا، واقعی، زندگی یہی سوچتےسوچتے گزر جاتی ہے۔ ناقابلِ فراموش تو میرا پسندیدہ صفحہ ہے اور اب آتے ہیں، اپنے صفحے کی طرف، خادم ملک بےچارے لگتا ہے دن رات یہی خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ چُوڑی دار پاجاما اور کھسّہ پہنے ماڈلنگ کررہے ہیں ہاہاہا… آخر میں آپ سے ایک چھوٹی سی، ننّھی سی فرمائش ہے کہ پلیز نعمان اعجاز کو بھی ’’کہی اَن کہی‘‘ کا مہمان بنائیں۔ (زارا طاہر، شاہ زمان ہائوسنگ اسکیم، کوئٹہ)
ج: کوئٹہ تم نے پورا دیکھا، نہ دیکھا، لیکن ایک بات طے ہے، یہ سرزمین ہے بہت زرخیز، چھوٹی چھوٹی لڑکیاں کیا کُھل کے لکھتی ہیں اور بہت ہی خُوب لکھتی ہیں۔ ہمیں تو تم اسماء دمڑ ہی کے خانوادے سے لگتی ہو۔
پورے پاکستان کی بیٹی
تقریباً6 دہائی سے اخبار جنگ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ یوں سمجھیے، اس اخبار کا مطالعہ عادت نہیں، فطرت کا حصّہ بن چُکا ہے۔ آپ کا میگزین شان دار ہے، پڑھنے کو بہترین مواد ملتا ہے۔ آج بذریعہ خط شرکت کی وجہ صرف اور صرف ’’آپ کا صفحہ‘‘ اور اس میں بھی خصوصی طور پر اسماء دمڑ کا برجستہ اندازِ تحریر ہے۔ اسماء دمڑ صرف بلوچستان ہی کی نہیں، پورے پاکستان کی بیٹی ہے۔ ایسی ہونہار بچّیوں کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔ (ڈاکٹر ایم سکندر جنگا، کراچی)
ج:جی، ہم تو روزِ اوّل ہی سے اس بیٹی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
سن ڈے کی صبح میگزین کے نام ہوتی ہے کہ؎ پھولوں کے رنگ سے، دل کے قلم سے… تیرے ہی سپنے لے کر سویا، تیری یادوں میں جاگا اور 9بجے جب دیدارِ رسالہ ہوتا ہے تو؎ تم آگئے ہو، نور آگیا ہے… نہیں تو چراغوں سے لوَ جارہی تھی۔ تو زیرِ تبصرہ شمارے کا سلسلۂ صفِ اوّل، حرفِ آغاز کی صورت پیشِ نظر ہے، جہاں عالمِ دین حافظ محمد وقاص تنولی نے قارئین کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ قرآن پڑھنے کی نصیحت کی۔ بے شک کہ ’’نصیحت نام ہی خیر خواہی کا ہے۔‘‘ ہمارے ہاں آکسفورڈ سے آئے دانش وَر بدزبانی میں جہلا کو بھی مات دے گئے ہیں، اس لیے زیادہ علم سے تھوڑا ادب سیکھ لینا بہتر ہے۔ پاکستان کی پہلی خاتون سول انجینئر کی شفق رنگ ڈیڑھ صفحاتی گفت گو کو خاتون نمائندہ جنگ، شفق رفیع نے شفقت سے نذرِ قارئین کیا۔ جب کہ رئوف ظفر نے ماہرِ غذا، ملک نجم الدّین مزاری کے دعویٰ ’’20ارب ڈالر‘‘ کو بڑی چاہت سے سپردِ قلم کیا۔ اگر ہمارے ملک کے اعلیٰ دماغ ستو باندھ کے آئی ایم ایف کے پیچھے پڑجائیں تو کبھی کوئی ہمیں ڈومور نہیں کہہ پائے گا۔ فارن افیئرز ایکسپرٹ منور مرزا نے اپنے رشحاتِ قلم میں ہمارے رشکِ قمر احتجاجی لیڈر کو باید و شاید مَت دی ہے کہ خارجہ امور عوامی جلسوں اور سڑکوں پر طے نہیں کیے جاتے۔ بائی دی وے اتحادیوں کی بے وفائی پر ہم خان صاحب کے ہم آہنگ ہیں؎چھلّا میرا جی ڈھولا۔ مُکھ سجناں موڑیا اے… پُھلّاں جہیا دل ساڈا، اوہناں منگ کے توڑیا اے۔ ڈاکٹر یاسمین شیخ نے نِکی جئی تحریر وچ اِک وڈّی دل چسپ گل کہہ دتّی کہ ’’جان جاتی ہے تو جائے، مگر کسی صورت فیشن نہ چھوڑا جائے‘‘ فطرت کے شیدا، عرفان جاوید نے گیبرئیل کی سرکردگی میں ہمیں اتنا مٹرگشت کروا دیا کہ سوچیں پے گئے ہاں کہ ’’ہم آدمی ہیں یا گھن چکّر؟‘‘ احمد اسلم جروار کے سائنسی آرٹیکل کی رَو میں بہتے ہوئے ہم نے چشمِ تصوّر سے جنّت کی راہ داریاں دیکھ لیں۔ اور ریلوے کی تباہی کی نوحہ گر کتاب ’’مَیں کہاں کہاں سے گزر گیا؟‘‘ پر منور راجپوت کا تبصرہ نہایت دل چسپ تھا۔محمد ہمایوں ظفر کی مرتّب کردہ دونوں تحاریر کے عنوانات میں حُسنِ اتفاق سے لفظ ’’حُسن‘‘ مشترک تھا۔ جب کہ کوچۂ سخن میں اقصیٰ منور ملک کی دل رُبا چٹھی دیگر دل فریب خطوط پر بازی لے گئی۔ ویل ڈن۔ اور گزشتہ تبصرے میں بندے نے رائٹرز نیم skip کرکے رسم توڑی تھی، تو اِس بار پیج ٹائٹلز گول کردئیے ہیں کہ قلمِ راجا ہے، ذرا وکھری ٹائپ کا۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج:آپ کو تو ہرگز یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کا قلم وکھری ٹائپ کا ہے۔ اب تو سنڈے میگزین کا اِک اِک قاری اس بات کا گواہ ہے۔
گوشہ برقی خطوط
* اکتوبر2021ء میں،’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے بذریعہ ڈاک ایک تحریر بھیجی تھی۔ اکتوبر ہی میں ہمایوں ظفر صاحب کی کال آئی، تحریر سے متعلق کچھ باتیں پوچھیں اور بتایا کہ تحریر قابلِ اشاعت ہے، جلد شایع ہوجائے گی۔ اور پھر اگلے ہی ماہ وہ تحریر شایع بھی ہوگئی۔ اس کے بعد بذریعہ ای میل ایک تحریر بھیجی اور وہ بھی جلد شامل ہوگئی، مگر اس سے متعلق پیشگی کوئی اطلاع نہ دی گئی۔ دوتحریریں چَھپنے کے بعد خاصا حوصلہ ملا۔ اِس کے بعد جامعہ کراچی کے اپنے شعبے ’’حیوانیات‘‘ سے متعلق ایک تحریر ارسال کی، جس سے متعلق آج آدھا سال گزرنے کے باوجود کچھ نہیں بتایا گیا۔ ناقابلِ اشاعت کی فہرست بھی باقاعدگی سے دیکھ رہا ہوں، اُس میں بھی نام شامل نہیں کیا گیا۔ (محسن احمد، نیو کراچی، کراچی)
ج: تحریروں کی اشاعت، عدم اشاعت سے متعلق باقاعدہ فون کرکے اطلاع دینے کی ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے، کسی تحریر میں کوئی ابہام ہو، تو وضاحت کے لیے لکھاری کو ضرور کال کرلی جاتی ہے۔ آپ نے اپنی تحریر سے متعلق استفسار کیا ہوگا، تو مجبوراً اُس کے قابلِ اشاعت ہونے کا بتادیا گیا ہوگا۔ رہی بات آپ کی آخری تحریر کی، تو24پریل کے شمارے کی’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں آپ کا نام بمع تحریر کا عنوان شامل تھا۔ صرف اپنی تحریروں ہی کا نہیں، ہماری شایع کردہ فہرست کا بھی بغور مطالعہ کیا کریں۔ اور خاص طور پر کسی شکایت سے قبل تو اپنی سائیڈ لازماً کلیئر ہونی چاہیے۔
* اب تک اَن گنت انٹرویوز کرواچکی ہیں۔ خود اپنا انٹرویو کب پڑھوائیں گی۔ کتنے ہی لوگ آپ سے یہ فرمایش کرچُکے ہیں۔ اور پلیز، مجھے میرا نام لے کر جواب دیجیے گا۔ (افشاں حسن مصطفیٰ، لاہور ٹائون)
ج: افشاں حسن مصطفیٰ! بات یہ ہے کہ ہمارے کریڈٹ پر ایسا کچھ نہیں، جس کے لیے باقاعدہ ایک انٹرویو دیا جائے اور ایک جریدے کی ادارت بھی کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں کہ جس کے ذکر کے لیے کسی انٹرویو کی ضرورت ہو۔ پھر ہر ہفتے آپ لوگوں سے نصف سے کچھ زائد ہی ملاقات ہوجاتی ہے، تو اب کوئی خاص بات بتانے کو رہ بھی نہیں گئی۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk