دنیا ایسے واقعات و سانحات سے بَھری پڑی ہے ،جنہیں بڑے اور ناقابلِ فراموش واقعات کا نام دیا جاتا ہے،لیکن تاریخِ انسانی میں اگر کسی واقعے کی گونج آج تک بہت شدّت سے سُنائی دیتی ہے، تو وہ61 ہجری میں پیش آنے والے ایک ایسے واقعے کی ہے، جس میں ایک بڑے لشکر کے مقابل سرورِ کائناتؐ کے اہلِ بیتؓ کے چند افراد آخر وقت تک پوری ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔اگر واقعۂ کربلا پر غور کیا جائے، تو اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے اس معرکۂ حق و باطل میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے قیامت تک کے لیے برائی اور سچّائی میں ایک واضح لکیر کھینچ دی۔
اس سانحے نے جہاں حق و باطل کی تفریق اجاگر کی، وہیں اقلیت کے باوجود اکثریت سے خائف ہونے کی بھی نفی کی۔ یہ واقعہ انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے،جس نے پوری نوعِ انسانی کو متاثر کیا کہ یہ کسی ایک خطّے، مذہب یا فرقے تک محدود نہیں، روزِ حشر تک زندہ رہنے والا ہے اور دنیا بھر میں عزاداری اس کا بیّن ثبوت ہے۔اس واقعے کی یاد منانے کے طریقے اور انداز مختلف ہوسکتے ہیں، خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتا ہے، مگر شہدائے کربلاؓ کی عظمت کا اعتراف ہر صاحبِ دل کرتا ہے۔
دنیا بَھر کی طرح پاکستان میں بھی محرّم کا چاند نظر آتے ہی فضا سوگوار ہوجاتی ہے۔مجالسِ عزا کا آغاز ہوجاتا ہے، امام بارگاہوں میں خاص طور پر اور عزا خانوں میں اکثر شبیہِ ذوالجناح بھی موجود ہوتی ہے۔نیز، امام بارگاہوں اور عزا خانوں کے ارد گرد عَلم، زنجیریں، پنجوں اور ماتم کے لیے خاص طور پر بنائی گئی نت نئے ڈیزائن کی چُھریوں کی خرید وفروخت کی دکانیں آباد ہوجاتی ہیں۔ محرّم کے پہلے عشرے کے دوران تقریباً روز ہی ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں، جن میں عزاداران نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کرتے ہیں، جب کہ شبیہِ ذوالجناح، تعزیے اور عَلم بھی جلوس کا اہم حصّہ ہوتے ہیں۔اِن جلوسوں میں عَلم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
یہ عَلم حضرت امام حسینؓ کے بھائی، حضرت عبّاس علمدارؓ کی یاد میں اٹھایا جاتا ہے اور اسے’’ پرچمِ عبّاسؓ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پرچمِ عبّاسؓ اصل میں پرچمِ حضرت امام حسینؓ ہے۔ یہ وہ نشانی ہے، جو دنیا کو بتاتی ہے کہ امام حسینؓ کا لشکر آج بھی باقی ہے۔ پرچم بلند ہے، اسلام دشمن قوّتوں نے اسے گرانے کی لاکھ کوششیں کیں، مگر ناکام رہے۔ یہ عَلم اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتے، جب تک اُن پر پنجہ، پھریرا یا عمامہ نہ ہو۔کراچی میں عَلم تیار کرنے والوں کی زیادہ دکانیں انچولی میں ہیں۔
اس عَلم کا ڈیزائن عام عَلم سے بالکل مختلف اور اس پر لکھی عبارت بھی قدرے مختلف ہوتی ہے۔یہ عَلم ماتمی جلوسوں میں نمایاں ہوتے ہیں۔پھر بڑے بڑے بانسوں پر لمبے اور تکون طرز کے پھریرے اور عمامے ہوتے ہیں،جن پر مختلف شخصیات کے نام موتی، ستاروں سے مزیّن ہوتے ہیں۔ عموماً عزاداران، محرّم کی آمد کے ساتھ ہی عزا خانوں کو سجانا شروع کردیتے ہیں۔عَلم، پنجہ، امام حسینؓ کے شیر خوار بچے علی اصغر کا جھولا، نادِ علیؓ اور دیگر تبّرکات عزا خانے میں پانی سے باقاعدہ پاک کرکے رکھے جاتے ہیں۔فقۂ جعفریہ کے تقریباً ہر گھر میں عزا خانہ موجود ہوتا ہے، جس کے باہر عَلم نصب کیا جاتا ہے۔
عَلم اور تابوت کے لیے مخصوص کپڑے کی چادریں تیار کی جاتی ہیں،جو مخمل یا ویلویٹ کے کپڑے کی بنی ہوتی ہیں اور ان پر حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلاؓ کے نام درج ہوتے ہیں۔ریشم کے تاروں، موتیوں اور دیگر قیمتی دھاگوں سے ان پر کڑھائی کی جاتی ہے۔ جس طرح عَلم کا ہدیہ اُس کی لمبائی چوڑائی کے حساب سے پانچ سے دس ہزار روپے تک ہوسکتا ہے، اِسی طرح چادر پر بھی پیمائش کے حساب سے خرچہ آتا ہے اور اسی حساب سے اس کا ہدیہ وصول کیا جاتا ہے۔ امام ضامن، نادِ علی اور دیگر تبّرکات جیسے پنجہ وغیرہ اسٹیل اور پیتل سے بنائے جاتے ہیں،جب کہ بعض پر سونے اور چاندی کا پانی بھی چڑھایا جاتا ہے اور پنجہ عَلم کے اوپری حصّے پر لگایا جاتا ہے۔
اِسی طرح جلوس میں ذوالجناح کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ پیکرِ وفا، ذوالجناح، حضرت امام حسینؓ کے اُس جاں نثار گھوڑے کا نام ہے، جس نے کربلا کی عظیم جنگ میں حضرت امام حسینؓ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اِسی لیے ہر جلوس میں ذوالجناح برآمد کیا جاتا ہے۔ جلوس کے دوران عزا دار شبیہِ ذوالجناح کے گرد ماتم کر کے امام کو پُرسہ پیش کرتے ہیں۔ ذوالجناح کو سجا کر جلوس میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کے جسم پر جگہ جگہ تیر باندھ کر کربلا کی جنگ، امامؓ کی عظیم قربانی اور ذوالجناح کی اُن سے وفا کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
شہدائے کربلاؓ کی یاد میں لنگر اور نذر ونیاز کے ساتھ دودھ اور پانی کی سبیلیں لگانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ سبیلوں میں پانی اور میٹھے مشروبات کے ساتھ دودھ اور میوہ جات کا انتظام کیا جاتا ہے اور ان سبیلوں کو خُوب صُورتی سے سجانا بھی عام روایت ہے، جب کہ نوحہ خواں اپنے مخصوص انداز میں نوحہ خوانی کرتے ہیں۔ نوجوان گروہ سبیلوں کے پاس کھڑے رہتے ہیں تاکہ جلوس کی گزرگاہ میں گندگی نہ ہو۔ نیز، اسکاؤٹس کی مختلف تنظیمیں بھی رہنمائی کے لیے موجود ہوتی ہیں۔
رات بھر حلیم کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں، جو زیادہ تر نوجوان گھنٹوں کی مشقّت سے تیار کرتے ہیں اور بعدازاں عقیدت مندوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔امام بارگاہوں سے منسلک مرکزی روڈ پر اسٹالز لگائے جاتے ہیں اور مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے بڑی بڑی سبیلوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، اسلامی کتب کے اسٹال بھی لگائے جاتے ہیں۔ کراچی میں کتابوں کی سبیل بھی لگتی ہے۔
مختلف انجمنوں کی جانب سے مفت ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جب کہ جلوسوں کے راستوں میں مختلف انجمنوں کی جانب سے گاڑیوں میں بریانی، جوس، روٹیاں، پھل اور دیگر کھانے نذر کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ یاد رہے، اِن ایّام میں حکومت کی جانب سے پاکستان بَھر میں جلوسوں کی سیکیوریٹی کے لیے سخت ترین انتظامات بھی کیے جاتے ہیں۔