• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ٹیسٹ کرکٹ میں قومی ٹیم کی کارکردگی پر سنجیدہ سوچ کی ضرورت

پاکستانی کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف گال میں دوسرا ٹیسٹ ہارنے کے بعد اب نیدر لینڈ کی ون ڈے سیریز کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز برابر کرنا برا نتیجہ نہیں ہے۔ لیکن پہلے ٹیسٹ میں سلمان علی آغا کو کھلانے کے لئے جس طرح فواد عالم کو ڈراپ کیا گیا اور دوسرے ٹیسٹ میں سلمان آغا کو ایک اور موقع دینے کے لئے تجربہ کار اظہر علی کو باہر بٹھایا گیا۔حالانکہ وننگ ٹیمو ں کو عام طور پر تبدیل نہیں کیا جاتا۔سلمان علی آغا نے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں نصف سنچری بناکر یہ ثابت کیا کہ اس نوجوان کرکٹر میں ٹیلنٹ موجود ہے۔

لیکن جس طرح سنیئر کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر بٹھا کر دباؤ میں لایا جارہا ہے اس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ شائد ٹیم انتظامیہ سنیئر ز سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔فواد عالم کو جس طرح دو ٹیسٹ کی کارکردگی پر ڈراپ کیا گیا وہ دوسرے ٹیسٹ میں سخت دباؤ میں دکھائی دیئے اسی طرح اظہر علی کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں دو ٹیسٹ کھلاکر ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ اظہر علی کو ڈراپ کرکے شان مسعود کو کھلانے کا ایک اور موقع ضائع کردیا گیا۔

لیکن شائد شان مسعود کی موجودگی کچھ لوگوں کو پریشان کرتی ہے اس لئے انہیں الیون میں کھلانے سے گریز کیا جاتا ہے اسی طرح فہیم اشرف بھی مستقل غلط سلیکشن پالیسی کی وجہ سے ڈراپ ہیں حالانکہ حسن علی کی خراب کارکردگی کے باوجود ان کو بار بار ٹیسٹ میچ کھلائے جارہے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی کا ان فٹ ہو کر سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ سے باہر ہو جانا پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا کیونکہ وہ اس وقت پاکستانی بولنگ اٹیک میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔میڈیا مسلسل کہتا رہا کہ ان کا ورک لوڈ مینیج کیا جائے۔

لیکن انہیں تینوں فارمیٹس میں مستقل کھلاکر گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا کردیا گیااب نیدر لینڈ کی سیریز میں بھی انہیں آرام دینے کی تجویز ہے۔ شاہین شاہ آفریدی سری لنکا کے خلاف گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے دوران گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے وہ دوسری اننگز میں صرف سات اوورز بولنگ کر سکے۔ پہلی اننگز میں انھوں نے عمدہ بولنگ کرتے ہوئے 14اعشاریہ ایک اوورز میں 58 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ گال ٹیسٹ میں فیلڈنگ کے دوران ڈائیو مارنے کی وجہ سے ان کے گھٹنے پر زور پڑا تھا جس کی وجہ سے انھیں ایم آر آئی کرانا پڑا تھا۔

شاہین شاہ آفریدی کے ان فٹ ہونے کا اثر براہ راست پاکستانی بولنگ اٹیک پر پڑا کیونکہ اس وقت وہ ایک ایسے بولر ہیں جو اس اٹیک کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ نسیم شاہ ایک مختلف بولر دکھائی دے رہے ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی اپنے بین الاقوامی کریئر کے آغاز سے اب تک تینوں فارمیٹس میں مسلسل کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز دسمبر 2018 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ابوظہبی میں ہونے والے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں کیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستانی ٹیم اب تک 27 ٹیسٹ میچ کھیل چکی ہے جن میں سے 25 میں شاہین شاہ آفریدی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔

وہ صرف دو ٹیسٹ نہیں کھیل پائے ہیں جو جنوبی افریقا اور بنگلہ دیش کے خلاف تھے۔شاہین شاہ آفریدی ان 25 ٹیسٹ میچوں میں 99 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اس طرح انھیں وکٹوں کی سنچری مکمل کرنے کے لیے اس سال نومبر تک انتظار کرنا ہو گا جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئے گی۔ شاہین شاہ آفریدی نے ان 25 ٹیسٹ میچوں کے علاوہ 32 ون ڈے انٹرنیشنل میں 62 وکٹیں اور 40 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 47 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ مسلسل فرنچائز کرکٹ بھی کھیل رہے ہیں۔ 

اس سال ان کی قیادت میں لاہور قلندرز نے پاکستان سپر لیگ پہلی بار جیتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس کاؤنٹی سیزن میں مڈل سیکس کاؤنٹی کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔دوسرے ٹیسٹ میں سری لنکا نے دھننجیا ڈی سلوا کی سنچری کی بدولت پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں فتح کے لیے 508 رنز کا ریکارڈ ہدف دیا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی ٹیم اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کر سکی اور جس سب سے بڑے ہدف کے حصول کا اعزاز ویسٹ انڈیز کو حاصل ہے وہ بھی اس ہدف سے 90 رنز کم یعنی 418 رنز تھا۔ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا پاکستانی ٹیم261 رنز پر آوٹ ہوگئی اور اسے دوسرے ٹیسٹ میں 246 رنز سے شکست ہوئی۔

دوسرے ٹیسٹ کے چوتھے دن پاکستانی بیٹنگ کوچ محمد یوسف نے مضحکہ خیز دعوی کیا تھا کہ پاکستان 508رنز بناکر میچ جیتنے کی کوشش کرے گا۔یوسف بڑے کھلاڑی رہے ہیں لیکن شائد اتنا بڑا دعوی کرنے سے قبل انہوں نے دماغ پر زور ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ گال ٹیسٹ کے پانچویں دن پاکستانی ٹیم کو محمد یوسف کی خواہش پوری کرنے کے لیے سوا چار رنز فی اوور کی اوسط سے 419 رنز بنا کر یہ میچ جیتنا تھا لیکن پہلے ہی سیشن میں گرنے والی چار وکٹوں کے نتیجے میں معاملہ میچ بچانے پر آ گیا اور جب دوسرے سیشن میں بابر اعظم کی اہم وکٹ بھی گری تو پاکستانی ٹیم نوشتۂ دیوار پڑھ چکی تھی۔

محمد یوسف نے آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ کی مثال دی تھی کہ اس میں بھی بابر اعظم کے ہوتے ہوئے جیت کا سوچا گیا تھا لیکن ان کے 196 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد حکمتِ عملی تبدیل کرنی پڑی تھی۔محمد یوسف نے کہا تھا کہ آخری دن پہلا سیشن بغیر کسی نقصان کے گذاریں۔ اگر ہم نے پہلا سیشن اچھا کھیلا تو ہدف پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ گال کی پچ اچھی ہے پہلی اننگز میں پچ پر گیند ٹرن ہورہاتھا لیکن اب پچ نسبتا آسان ہوگیا ہے۔ سیٹ ہونے کے بعد بیٹرز کو آوٹ کرنا مشکل ہے۔

اس وقت ٹیم اچھا کھیل رہی ہے اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپن شپ کا کوئی پریشر نہیں ہے کھلاڑی چیلنج لے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پانچ سو سے زیادہ کا ہدف ملا تھا اس ٹیسٹ میں بابر اعظم نے زبردست بیٹنگ کی تھی اور196 عبداللہ نے 96اور محمد رضوان نے سنچری بنائی تھی۔ یوسف پچ کی حقیقت سے نا واقف تھے اور پاکستانی ٹیم پانچویں دن لنچ کے بعد آوٹ ہوکر میچ ہار گئی۔سری لنکا کی سیریز میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم آئی سی سی ٹیسٹ چیمپین شپ میں تیسرے سے پانچویں نمبر پر چلی گئی ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا کی ہوم سیریز میں پاکستان کو ایک صفر سے شکست ہوئی تھی۔ ٹیسٹ فارمیٹ میں ٹیم کی کارکردگی پر سنجیدہ سوچ وبچار کی ضرورت ہے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید