• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دعا مصطفیٰ

کسی گاؤں میں ایک لڑکا عباس اپنے ماں باپ اور بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ بہت ہی غریب نیک، سمجھ دار اور ایمان دار تھا۔ عباس بھی اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے گاؤں کے چودھری کی زمین پر کام کرتا تھا۔ چودھری بڑا ہی کنجوس تھا۔ وہ عباس کو کام کے بدلے تھوڑے سے پیسے دیتا ،جس سے ان لوگوں کی گزر بسر بہت مشکل سے ہو پاتی۔

گرمیوں کے دن تھے، ایک شام ، عباس کھیت میں اکیلا کام کر رہا تھا۔ سب کسان اپنے اپنے گھر جا چکے تھے۔ اس نے یہ سوچ کر کام بند نہیں کیا کہ چلو تھوڑا ساکام ہے آج ہی اسے مکمل کر لیتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد اس کاکام ختم ہو گیا، وہ اپنا سامان باندھ ہی رہا تھا کہ دور سے ریل کی آواز سنائی دی،آواز قریب ہوتی جارہی تھی۔ 

عباس نے سوچا کہ چلو آج قریب جاکے ریل دیکھ لو۔ وہ وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ ریل کی پٹڑی بیچ سے ٹوٹی ہوئی ہے، ابھی ریل کچھ دور تھی اس نے سوچا ریل میں پتا نہیں کتنے مسافر سوارہوں گے، ان کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ سوچ کروہ بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھ گیا اور زور زور سے آوازیں دینے لگا ”ریل کی پٹڑی ٹوٹی ہے، ریل کوروکو۔“

ریل کے ڈرائیور نے جب یہ آواز سنی تواس نے ریل روک دی اور باہر آکر غصے سے پوچھنے لگا ”کیا بات ہے لڑکے! ریل کیوں رکوادی؟ تمھیں شرارت کرنے کے لیے یہی بات سوجھی، تمھیں پتا ہے اس ریل میں وزیر اعلیٰ کی والدہ بھی موجود ہیں۔‘‘

عباس نے کہا، ”ارے چاچاجی! میری کوئی شرارت نہیں میں سچ بول رہا ہوں، آگے ریل کی پٹڑی ٹوٹی ہوئی ہے۔ اگر میں وقت پر نہیں بتاتا تو آج مسافروں کی جان جا سکتی تھی۔ دیکھیے اس ریل میں کتنے مسافر سفر کررہے ہیں۔“

ڈرائیور نے اس کی بات غور سے سنی اور اسے یقین ہوگیا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔”مہر بانی بیٹا! تم نے ہماری جانیں بچا لیں۔‘‘“ڈرائیور چاچا نے کہا۔

”نہیں چاچا یہ تو میرا فرض ہے۔“

”اچھا بیٹا! آپ کے والد کا نام کیا ہے، جس کا اتنا فرض شناس بیٹا ہے۔‘‘ ڈرائیور نے پوچھا۔

”میرے والد کا نام غلام محمد ہے۔“ عباس نے یہ کہا اور پہاڑی سے اُتر کر اپنے گھر کی راہ لی۔

ڈرائیور نے ریلوے حکام کو اطلاع دی، انہوں نے عباس کی بتائی ہوئی جگہ کا معائنہ کیا تو واقعی ریل کی پٹری ٹوٹی ہوئی تھی، اگر عباس ریل نہ رکواتا تو ایک بڑا حادثہ یقینی تھا۔

اگلے دن عباس کھیت میں کام کررہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کالے رنگ کی کار پر پڑی، اس کا دروازہ کھلا اور اس میں ایک سوٹ پہنے ایک آدمی اور دو گارڈ کھیتوں کی طرف آنے لگے ۔اس آدمی نے بچے سے پوچھا:”یہاں غلام محمد کا بیٹا کام کرتا ہے؟“

”جی میں ہوں غلام محمد کا بیٹا، فرمائیے۔“عباس نے قریب آکر جواب دیا۔

اس آدمی نے عباس سے کہا: ”تم نے میری ماں سمیت بہت سے انسانوں کی جان بچائی ہے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کو حکومت کی طرف سے ایک اچھا گھر اور ایک بڑی رقم انعام کے طور پر دی جائے۔ تمھاری تعلیم مفت ہو گی۔ ملک کو تم جیسے ہونہاروں کی ضرورت ہے۔ چلو ہمیں اپنے والد سے ملواؤ۔“ یہ سن کر عباس بہت خوش ہوا کہ اللہ پاک نے اس کی اچھائی کا بہترین صلہ دیا۔