عابد محمود
یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کی سوچ اور نظریہ ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ اپنی ایک علیحدہ رائے قائم کرتےہیں۔ ہر کسی کو اپنی رائے معتبر اور درست لگتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا اور انہیں اپنی بات پر قائل کرنے کے لیے جد جہد کرتا ہے۔ کچھ لوگ مدمقابل کی رائے سے متفق ہوجاتے ہیں، کچھ اپنی رائے پر ہی قائم رہتے ہیں، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری نسل نو کی اکثریت اختلاف رائے کے معاملے میں کافی جذباتی واقع ہوتی ہے۔
نوجوانی کی عمر چوں کہ جوش و جذبے سے بھرپور ہوتی ہے، اس میں براشت کا مادہ کم، غصہ اور جوش و ولولہ زیادہ ہوتا ہے، شاید اس لیے نوجوانوں کی اکثریت مدمقابل کی رائے کو تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھتی ہے۔ وہ اختلاف رائے کو تصادم سمجھ لیتے ہیں، دوسروں کوروشن دلائل سے قائل کرنے کے بہ جائے جارحانہ انداز اپنا کر، زبر دستی اپنی بات پر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہی۔
اس کی جیتی جاگتی مثال سوشل میڈیا ہے۔ جہاں معمولی اختلاف پر بھی ایک دوسرے پر سخت لعن طعن کی جاتی ہے، حالاں کہ اختلاف رائے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ لڑائی جھگڑا، بدگوئی اور ذاتیات پر حملے کیے جائیں۔ بحث و مباحثے کرنا، کسی بات پر تنقید یا نکتہ چینی کرنا، اپنے نظریات کا تحفظ کرنا ضروری اور صحت مند سرگرمیوں میں شمار ہوتا ،مگر بات کہنے اور دوسروں کو اس پر قائل کرنا کا ایک طریقہ ہوتا ہے، جامع دلائل کی بنا پر ہی کسی کو اپنا حامی بنایا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بھی امر بھی قابل ذکر ہے کہ ضروری نہیں کہ آپ کا دوست یا کلاس فیلو ہر وقت ہی آپ کی بات پر متفق ہوں، ہو سکتا ہے، ان کے نظریات ، سوچ و افکار آپ سے جدا اور بہتر ہوں، اسی لیے اپنی رائے کسی پر مسلط مت کریں ، بلکہ مخالفین کو دلائل کی بنا پر اپنا حامی بنانے کی کوشش کریں۔ ہر انسان کے سوچنے سمجھنے کا اندازاس کے تجربات سے عبارت ہوتا ہے، اسی لیے اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے۔ لوگ شعوری اور ذہنی اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ احترامِ آدمیت کے اصول کا تقاضہ ہے، کہ ہم میں سے ہر ایک کواپنی آراء، نظریات، فکر وعمل اور فلسفہ حیات کو اپنانے اور اس پر کاربند رہنے کا مجاز تصور کیا جائے۔
دوسروں کی آراء اور اختلافات کو برداشت کرنا ہماری اخلاقی اور آئینی ذمے داری ہے۔ نوجوانوں میں پنپتے ہوئے عدم برداشت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں دوسروں کی رائے کا احترام کرنا نہیں سکھایا جاتا، انہیں اپنی بات مدلّل انداز میں کہنے کی تربیت نہیں دی جاتی، انہیں تربیت دے بھی تو کون، جب بڑوں ہی میں برداشت ، صبر و تحمل باقی نہیں رہا، تو بچوں کو وہ کیا تربیت دیں گے۔ اختلاف رائے کو معاشرے کی ترقی میں خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے، ہماری تنزلی کی ایک وجہ شاید یہی ہے کہ ہم دوسروں کی رائے اختلاف رائے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اپنی رائے پر ہی ڈٹے رہتے ہیں، بس یہی سوچتے ہیں کہ ہمارے نظریات، سوچ و افکار درست اور دوسرے کے غلط ہیں۔
حالاں کہ دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے ڈسکشنز فورم منعقد کروائے جاتے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے آئیڈیاز، نظریات، سوچ آپس میں شیئر کر سکیں، ان کے دماغ کے دریچے کھلیں، اندازِ تفکر میں وسعت پیدا ہوتا، سوچنے کی نئی راہیں ہم وار ہو سکیں، اس کے بر عکس نوجوان تو مخالفین کی بات سننے کے لیے ہی آمادہ نہیں ہوتے۔
دوسروں کی رائے کو تسلیم کرنا انہیں اپنی توہین لگتا ہے، جس سے ہم ایک نئی سوچ، نئے آئیڈیے اور نئی فکر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ نسل نو کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اختلاف رائے ضرور رکھیں، مگر اخلاقیات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ اگر تعلیمی اداروں میں پے در پے مباحثے یا تقریری مقابلے منعقد کروائے جائیں، تو تو نسل نو میں بھی دوسروں کی بات سننے یا اختلاف رائے کا جواب مدلل انداز میں دینے کا جذبہ بیدار ہوگا۔
ترقی پسند معاشروں میں اختلافِ رائے ایک خوش آئند بات سمجھی جاتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان معاشروں میں ہر فرد بالخصوص نسل نو کو سوچنے کی آزادی ، ہر کسی کی سوچ کی اہمیت ہے۔ مہذب انداز گفتگو کے ذریعے اختلافی خیال پیش کرنا نوجوانوں کو ہر زاویے سے آگے بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے، ورنہ وہ گھٹن کا شکار ہوجاتے ہیں، جو کسی بھی منفی صورت حال کا باعث بن سکتی ہے۔ اختلاف رائے کسی بھی معاشرے کی فکری تربیت اور ترقی کے لیے نہایت ضروری امر ہے۔
انسانی دماغ پیدائش کے وقت ایک ایسی صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے ،جس پر کچھ بھی نہ لکھا گیا ہو ، جیسے جیسے وہ مختلف تجربات کے عمل سے گزرتا ہے، اس کے علم میں اضافہ ہوتاجاتا ہے۔ ہر چیز کو مختلف انداز اور مختلف پہلو سے دیکھتا ہے،کیوں کہ اس کے تجربات ، دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر ہم دوسروں کی رائے کا احترام کرنے لگیں ،تو معاشرے میں نئے خیالات ، برداشت کی فضا پروان چڑھے گی، جب ہم اپنی رائے دوسروں کے سامنے رکھتے ہیں، تو اس کے حق اور مخالفت میں ملنے والے دلائل کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں، اس طرح بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
قوموں کی کام یابی کی ایک بڑی وجہ ترقی کے عمل اور نئے خیالات ابھارنے کی صلاحیت ہے، جب بھی اقوام میں عدم برداشت پروان چڑھا، تو تصادم، نسل نو میں انتشار ،تصادم، انارکی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہم لوگ اپنے نظریات سے مختلف نظریات رکھنے والے افراد کو برداشت نہیں کر تے، لیکن جب ہم دنیا میں ترقی اور خوش حالی کی بات کر تے ہیں، تو یہ سب ایسے لوگوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے، جنہوں نے دوسروں کی رائے کا احترام کیا، کچھ نیا سیکھا، کچھ نیا سوچا۔ ہمیں ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرنی چاہیے جہاں تعمیری سوچ کا خیر مقدم کیا جائے اور اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے۔