• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حافظ بلال بشیر

سیاسی تاریخ میں طلبا کا اہم کردار رہا ہے۔ جدوجہد آزادی میں بھی نوجوانوں کے دستے ہی آگے آگے تھے۔ برصغیر کی ایک صدی پر محیط پرآشوب سیاسی صورتحال کا اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو اس خطے کو غلامی اور انگریز کے تسلط سے آزاد کرانے میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا کردار بڑا جاندار و شاندار رہا ہے۔ برصغیر میں نوجوانوں اور طلبہ سیاست کا باقاعدہ آغاز 1905 میں تقسیم بنگال کے بعدہوا۔ 1920میں تحریک خلافت میں بھی نوجوان طبقے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آزادی برصغیر کے ہر موڑ پر نوجوانوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے ملک کے ہر شعبے پرروایتی نواب، وڈیرے اور جاگیردار قابض ہوگئے، جنھوں نے پوری قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سیاسی پارٹیاں چونکہ ریاستی مشینری کےلئے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں، جہاں سے نوجوان تربیت اور ذہنی سیاسی شعور حاصل کرکے اپنے ملک کے لیے کردار ادا کرتے ہیں، اسی لیے نوجوان طبقے کا سیاست سے گریز اور سیاست میں عدم دلچسپی کسی بھی ملک کےلئے کوئی نیک شگون نہیں ہوتا۔ 

طلبہ یونینز جب تعلیمی اداروں میں فعال تھیں تو تعلیمی ادارے مختلف مواقع پر بہترین لیڈرز بھی دیتی رہیں۔ طلبا یونین پر پابندی نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو غیر سیاسی بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ نوجوانوں پر سیاست کے دروازے بند کرکے ان کی سوچ وفکر کو یرغمال کر دیا۔

وطن عزیز اس وقت سیاسی و معاشی لحاظ سے نہایت نازک دور سے گذر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوان اس صورت حال میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور سیاسی استحکام تب ہوتا ہے جب ایک دوسرے کو قبول کیا جائے دلوں میں نفرت پیدا نہ کی جائے لیکن اب تو سیاست میں عدم برداشت کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گالی گلوچ، الزام تراشی اور ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالنا عام ہوتا جارہا ہے۔

ان حالات میں نوجوانوں میں سیاسی شعور پیدا کرنا ، انہیں سرگرم کرنا بہت ضروری ہے۔ نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ سیاست کے میدان کو استعمال کرتے ہوئے ملک و ملت کارخ بدلنےکی کوشش کریں۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوان فعال کردار ادا کریں۔ اگر آپ سیاست میں سرگرم نہیں ہونا چاہتے تو اس سے لا تعلق بھی نہ رہیں ووٹ کی اہمیت کو جانیں انتخابات میں حق رائے دہی کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ سسٹم کو برا کہنے سے سسٹم نہیں بدلے گا بلکہ سسٹم کا حصہ بننے سے یہ بدل سکتا ہے۔ ‘‘ نوجوان اس قول پر غور کریں اور سیاست کاحصہ ضرور بنیں لیکن نعرے لگانے اور جھنڈے اُٹھانے کی حد تک نہیں بلکہ اپنا وژن بنائیں، مسائل اور حقوق کی بات کریں، ملک میں تبدیلی لانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اپنے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ رکھیں۔ 

ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کوشش کریں کہ ملک میں ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیں، اس کے لیے سیاست کی الف ب کو سمجھنا ضروری ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے ہموار ہوں۔ سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ، الزام تراشیوں، لڑائی جھگڑوں سے لطف انوز نہ ہوں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ نفرتیں، لڑائیں، عدم برداشت ختم ہوں۔