انور حسین
کسی بھی قوم و ملک کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنے سے قبل اس کے نوجوانوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ جس قوم کے نوجوان مضبوط قوت و فکر رکھتے ہوں، ان کی زندگی کا ایک مقصد اور نصب العین ہو تو اس قوم و ملک کا مستقبل ان مقاصد کی تکمیل کے لئے سا زگار ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں کا طرز زندگی ہی قوم کا طرز زندگی ہوتا ہے۔ سمت اور مقصد درست ہو تو روشن مستقبل تک رسائی مشکل نہیں رہتی اور اگر سمت سفر اور مقصد میں انتشار ہو تو زوال بھی تیزی کے ساتھ آتا ہے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ نوجوانوں کا موجودہ طرز زندگی مستقبل کی کونسی تصویر پیش کر رہا ہے۔ ایک طبقہ جو امیر گھرانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ طبقہ پیسے کے بل بو تے پر ایک نئے کلچر کو فروغ دے رہا ہے۔ پاپ کلچر، رات دیر گئے تک پارٹیاں، فیشن کے نام پر عریانیت، ڈیٹنگ اور ڈرگس میں مشغول، ساتھ بڑھتے ہوئے جرائم اور ان کے درمیان پروان چڑھتی خود غرضی، خود پسندی، نفرت، حسد اور خودکشی کے واقعات نے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسرا طبقہ جو غریب بھی، بے روزگاربھی، روزانہ صبح اُٹھتے ہی روزی روٹی اور نوکری کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔
دن رات محنت کرکے چند پیسے کماتا ہے۔ اس طبقہ کا ایک بڑا حصہّ امیر طبقہ کی نقالی میں اپنی محنت کی کمائی ضائع کرنے میں مشغول ہے، جب وہ سب نہیں کر پاتے جو امیر زادے کر رہے ہوتے ہیں تو ان میں مایوسی اور غصّہ جنم لیتا ہے تیسرا طبقہ وہ ہے جو سنجیدگی سے ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہا اور اپنے کریئر کو بہتر بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ اس میں متوسط اور امیر دونوں نوجوان شامل ہیں۔ سماجی زندگی کا شعور اور Social Activism بھی ان کے اندر پایا جا تا ہے۔ ملک و قوم سے محبت کا جذبہ اور اپنے ملک کی ترقی کی فکر بھی اس طبقہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے۔ وہ اچھا دکھنا چاہتا ہے، مشہور ہو نا چاہتا ہے، طاقت ور اور دولت مند ہو نا چاہتا ہے۔ یہ تمام چیزیں فطری ہیں اسی لیے نوجوانوں میں خود پسندی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ خود پسندی ان کے اندر تکبّر اور حرص جیسی صفات کو پروان چڑھارہی ہے۔ کریئر کی مسابقت ان کو خود مرکزیت پر مجبور کر رہی ہے۔ خود مرکزیت سرمایہ دارانہ ذہنیت کو جنم دیتی ہے اور سرمایہ کی حرص کرپشن، بے ایمانی، دھوکہ اور ظلم جیسی خرابیاں پروان چڑھنے کی وجہ بن رہی ہے۔
آج کےنوجوانوں کی ظاہری اطوار و بنائو سنگھارپر توجہ زیادہ ہے۔ باطنی اخلاق اور اصلاح قلب کی طرف توجہ کم ہے۔ ظاہری طور پر خوبرو نظر آنےکے لئے جم میں جسمانی مشقّت کرتے ہیں لیکن صحت پر ہونے والے منفی اثرات سے بے خبر ہیں۔
ظاہری حسن میں بالوں کی تراش و خراش کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ نوجوان خوبصورت دکھنے کےلئے رنگت گوری کرنے والی کریم کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان میں خوبصورت نظر آنے کا رجحان زیادہ تر فلمی ستاروں کو دیکھ کر پروان چڑھتا ہے۔ سیلفی کلچر جہاں نوجوانوں کے لئے اپنی شخصیت اور سرگرمیوں کے اظہار کا ذریعہ ہے وہیں ان میں خود نمائی کی بیماری پروان چڑھانے کا باعث بھی ہے۔ سیلفی ایک عادت بنتی جا رہی ہے۔
اس پورے منظر نامے میں جو تصویر اُبھر کر آرہی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ بیش تر نوجوانوں کی صلاحیتیں، طاقت اور توانائی فضول اور لایعنی چیزوں میں صرف ہو رہی ہیں، ان کی بے مقصد زندگیاں انہیں گمراہی کی طرف ڈھکیل رہی ہیں، اخلاقی معیارات دن بہ دن زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں۔
نوجوانوں کی سوچ اور فکر کو کسی ایک نقطہ پر ہمیشہ کے لئے مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کا فائدہ غلط افکار سے صحیح افکار کی طرف سفر سے ہو سکتا ہے۔
ان میں مثبت سوچ اور سائنسی نقطہ نظر کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،ان کا ذہن روایت پسندی کے بجائے ہر نئی سوچ کو قبول کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ فیشن اور کلچر دیر پا نہیں ہوتے، اس کی جگہ اچھا کلچر اور فیشن پروان چڑھایا جائے تو تبدیلی کے امکان بہت زیادہ ہوسکتے ہیں، علم کے ذرائع عام ہونے کی وجہ سے علم کی ترسیل عام ہوتی جا رہی ہے۔
نوجوانوں کو طبقاتی کشمکش سے نکل کر طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ دوسروں کے رنگ میں رنگنے کے بجائے اپنی چادر دیکھ پیر پھیلائیں۔ یاد رکھیں ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔