اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ میں سندھ کے بلدیاتی حلقہ بندیوں کیخلاف مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے ہیں کہ سندھ کی بعض یوسیز میں آبادی میں فرق 100فیصد سے بھی زائد ہے، لوکل باڈیز ایکٹ پر عملدرآمد میں سقم نظر آرہا ہے،کیا الیکشن کمیشن سقم نظرانداز کرسکتا ہے؟عدالت قانون تبدیل نہیں کرسکتی لیکن سقم کی نشاندہی کرسکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا حلقہ بندی اختیار ایک شق میں الیکشن کمیشن دوسری میں حکومت کو ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی اسپیشل بینچ نے سندھ بلدیاتی حلقہ بندیوں کیخلاف متحدہ قومی مومنٹ کی درخواست پر سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے قانون سازی صوبائی حکومت کا اختیار ہے لیکن صوبائی قانون پر عملدرآمد کے دوران کچھ سقم نظر آ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمیشن سقم نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے حلقہ بندی کرسکتا ہے؟بعض یونین کمیٹیوں کی آبادی میں فرق سو فیصد سے بھی زیادہ ہے،الیکشن کمیشن اتنا ہی کام کر سکتا ہے جتنا اسے اختیار ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں یونین کمیٹیوں کی تعداد کیلئے باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ صوبائی حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں کمیٹیوں کی تعداد کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا۔انھوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کی اس سے بڑی بدنیتی اور کیا ہوگی کہ اورنگی ٹائون کی سات لاکھ آبادی پر مئیر کیلئے 7 جبکہ مومن آباد کی 4 لاکھ آبادی پر 9 ووٹ مختص ہیں۔ کراچی سے بلا مقابلہ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کی طرف سے خالد جاوید خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔