راجہ افتخار آزاد جموں و کشمیر آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ایشو گزشتہ 26 سالوں سے چل رہا ہے آج سے دس سال قبل عدالت عالیہ نے ایک رٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے فوری بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا حکومت وقت نے حیلوں بہانوں سے وقت گزار دیا لیکن بلدیاتی انتخابات نہ کروائے اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی کہ آزاد کشمیر میں لوکل باڈیز اداروں کو بحال کیا جائے جس پر سپریم کورٹ نے آج سے پانچ سال پہلے فیصلہ دیا کہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں ایک مرتبہ حکومت نے سابقہ حکومتوں کی طرح ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے وقت گزار دیا گزشتہ سال تحریک انصاف کی حکومت نے قائم ہوتے ہی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا کہ اگست 2022 میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے لیکن اپریل میں تحریک انصاف نے اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد پیش کرکے سردار قیوم نیازی کی حکومت کا خاتمہ کردیا تحریک انصاف کے سردار تنویر الیاس نئے وزیر اعظم آزاد کشمیر بن گئے جنہوں نے پہلے خطاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا لیکن انہوں نے بھی کابینہ دبائو میں آکر بلدیاتی انتخابات پر تاریخیں دینا شروع کر دیں۔ گزشتہ ماہ سے سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری قانون نے بلدیاتی انتخابات کروانےکی تاریخ دہے رہے ہیں اس کیلئے 30 کروڑ گرانٹ کی واگزاری کر دہ ہے لیکن حکومت نے درپردہ انتخابات ملتوی کرانے کا پلان جاری رکھا۔
10 اگست کو وزیر قانون فہیم اخترربانی نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے برائے راست چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم کو ٹیلی فون پر کہا کہ آپ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کرکے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بات کریں جس پر چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر نے فوری طور پر ججز کا اجلاس بلا کر وزیر قانون کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے دو دن میں عدالت میں پیش ہونے کاحکم دیا 12اگست کو وزیر قانون عدالت اعظمی میں پیش ہوکر غیرمشروط معافی مانگی جس پر عدالت نے ایک ہفتہ کے اندر تحریری معافی نامہ جمع کرانے کا حکم دیا۔
اس موقع پر جسٹس رضا علی خان نے وزیر قانون سے سخت سوال کیے جن کا وزیر قانون کے پاس کوئی جواب نہ تھا وزیر قانون نے ساری غلطی سیکرٹری پر ڈالتے ہوئے اسے معطل کردیا جس پر عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری کو فوری بحال کیا جائے اور جب معافی نامہ جمع کروانے آئو تو اس کے ساتھ سیکرٹری کی بحالی کا آرڈر بھی لانا اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ عبدالرشید سلہریا نے دونوں ممبران راجہ فاروق نیاز اور فرحت علی میر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا کہ 28 ستمبرکو آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہونگے اور 15 اگست سے 22اگست تک کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ مقرر کی حکومت آزاد کشمیر دو پلان میں ناکامی کے بعد تیسرے پلان کی طرف فوری اپلائی کیا کہ قانون سازی کے زریعے بلدیاتی انتخابات کو روکا جائے فوری طور پر اسمبلی اجلاس بلاکر الیکشن کمیشن بلدیات کو بحال کرنے کیلئےآئین میں ترمیم کی جائے اسمبلی اجلاس کے شروع ہوتے ہی معاون خصوصی اطلاعات چوہدری رفیق نیئر نے بلدیاتی انتخابات کو التوا میں کرنے کیلئے اسمبلی میں قرار دار ایسو (زمینداری) پیش کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ وقت زمینوں سے فصل سنبھالنے کا ہے بلدیاتی انتخابات کےلیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کررہے ہیں تاکہ بہتری لائی جاسکے جس پر وزیر بلدیات خواجہ فاروق احمد نے کہاکہ غیر جانبدار الیکشن کروانے جارہےہیں قرار داد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن بلدیات کی بحالی کیلئے ایوان میں وزیر بلدیات خواجہ فاروق احمد کی جانب سے ترمیمی مسودہ پیش کردیا گیا اور دس اراکین اسمبلی جن میں فہیم اخترربانی چوہدری رشید محمد رفیق نیئر محمدمظہر سعید احمد رضا قادری نبیلہ ایوب خواجہ فاروق راجہ فاروق حیدر خان شاہ غلام قادر اور چوہدری لطیف اکبر شامل ہیں جس کے بعد وزیر اعظم سردار تنویر الیاس سمیت دیگر ممبران اسمبلی نے بحث میں حصہ لیا قانون ساز اسمبلی کی کارروائی کی خبر جونہی عوام تک پہنچی شدید عوامی ردعمل سامنے آیا لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر حکومت اور اپوزیشن اراکین اسمبلی کے خلاف نعرہ بازی کی وکلاء کی جانب سے عدالت اعظمی سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے اپنی قیادت پر سخت تنقید کی کہ آزاد کشمیر میں عدالتی حکم پر 31 سالوں بعد بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا جس کو عوامی نمائندے ناکام بنارہے ہیں۔
عوامی ردعمل اپنی جگہ درست ہے گزشتہ 26 سالوں سے وزرائے حکومت اراکین اسمبلی بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ہیں اگر بلدیاتی ادارے بحال ہوجاتے ہیں وزرائے حکومت اور اراکین اسمبلی سے ترقیاتی فنڈز منتقل ہوجائیں گے چیئرمین ضلع کونسل وزیر سے زیادہ بااختیار ہوگا جس طرح ماضی میں تھا یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت میں وزیر اعظم پر یہ دباؤ رہا ہے اس وقت عدالت اعظمی الیکشن کمیشن عوام اور حکومت آمنے سامنے ہیں الیکشن کمیشن نے عدالت کے حکم کی روشنی میں شیڈول کا اعلان کیا جس کو عدالت یا ایگزیکٹیو آرڈر کے زریعے منسوخ کیا جاسکتا ہے عدالت کی جانب سے توہین عدالت کے چانسز بھی موجود ہیں۔
قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہر صورت منعقد ہونگے اب حکومت پھنس چکی ہے سب سے زیادہ تنقید تحریک انصاف کی حکومت پر اپنے ورکرز اور دوسری جماعتوں کے لوگ کررہے ہیں اگر عدالت کی جانب سے کوئی فیصلہ آتا ہے اس کے بعد انتخابات ہوتے ہیں حکمران جماعت کو سب سے زیادہ نقصان کاخدشہ ہے اسمبلی کارروائی کے بعد سب سے زیادہ ردعمل تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے سامنے آیا ہے عوام نے غصہ وزیر اعظم کی رات کو یوم آزادی پاکستان کی تقریب جو نلوچھی پل پر ہونا تھی وہ کارکنوں کی بدنظمی کاشکار ہوگئی گزشتہ ایک ماہ سے آزاد کشمیر میں شدید احتجاجی مظاہروں نے نظام زندگی مفلوج کردیا ہے پہلے آئین بحالی تحریک اور اب بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے پر عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔