گزشتہ کچھ عرصہ سے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے بدامنی کی خبریں آرہی تھیں جبکہ بعض سیاسی رہنماؤں نے کئی ماہ قبل ہی حالات کی خرابی کی طرف اشارہ بھی کردیا تھا مگر تب صوبائی حکومت سب اچھا کی رٹ لگائی ہوئی تھی ، خیبر پختونخوا کے لوگوں کو ماضی میں انتہائی بدترین حالات سے گزرنا پڑا تھا، ایک طرف پورا سابقہ فاٹا عسکریت پسندی کی آگ میں جل رہا تھا تو دوسری طرف ملاکنڈ ڈویژن میں بھی حکومتی رٹ عملاً ختم ہوچکی تھی ،ساتھ ہی صوبائی دارالحکومت پشاور بھی خودکش دھماکوں کی زد میں تھا۔
اس دوران ہزاروں بے گناہ افراد اپنی زندگیاں گنوا بیٹھیں، اگر ملاکنڈ ڈویژن کی بات کی جائے تو وہاں بالخصوص سوات میں طالبان کی جانب سے عسکریت پسندی میں شدت آنے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی سابق حکومت نے امن معاہدوں کے ذریعے قیام امن کی جو کوششیں کیں وہ ناکام ہوتی چلی گئیں جس کے بعد وہاں پر فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا اور ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی تاہم فوجی کارروائی کے ذریعے جلد ہی سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن کو عسکریت پسندوں سے پاک کیا گیا اور قیام امن کو ممکن بنایا گیا، ساتھ ہی جب سانحہ اے پی ایس کے بعد پوری سیاسی قیادت نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوئی تو شمالی وزیرستان میں حتمی فوجی کاروائی شروع کی گئی۔
آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے باجوڑ سے لیکر جنوبی وزیرستان تک قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے خالی کراکے قیام امن کو ممکن بنایا گیا جس کے بعد فاٹا کو صوبہ میں ضم کردیا گیا تاکہ وہاں پر بحالی اور تعمیر و ترقی کا عمل تیز کیا جاسکے مگر خیبر پختونخوا میں اب ایک مرتبہ پھر بدامنی کے خطرات میں اضافہ ہونے لگا ہے، سب سے تشویشناک آمر تو یہ ہے کہ خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے آبائی علاقہ تحصیل مٹہ سے انتہائی تشویشناک خبریں آرہی ہیں۔
خبریں تو پہلے ہی سامنے آرہی تھیں مگر صوبائی حکومت اس حوالے سے حقائق سے نظریں چرانے لگی تھی مگر گزشتہ دنوں جب ایک پولیس افسر کو باقاعدہ مقابلہ میں زخمی کرنے کے بعد عسکریت پسندوں نے گرفتار کیا اور بعد ازاں مبینہ طور پر اسے ایک جرگہ کے ذریعے رہا کروایا گیا تو مقامی آبادی کو صورت حال کی سنگینی کا شدت سے احساس ہوگیا اسی دوران ضلع دیر کے علاقہ میدان میں تحریک انصاف کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ملک لیاقت خان کی گاڑی پر حملہ بھی کیا گیا جس میں ان کے بھائی اور بھتیجے سمیت چار افراد جاں بحق اور ایم پی اے شدید زخمی ہوئے جو تاحال ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
باجوڑ اور شمالی وزیرستان میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے واقعات کیخلاف مقامی سطح پر احتجاج جاری ہے، ان تمام واقعات کا جائزہ لیا جائے تو صوبہ کے عوام کی تشویش بجا دکھائی دیتی ہے کہ اگر اس مرحلہ پر مل بیٹھ کر واضح لائحہ عمل اور حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو خدانخواستہ خیبر پختونخوا میں ایک مرتبہ پھر بدامنی کی لہر چل سکتی ہے جس کا خمیازہ پھر یہاں کے بدقسمت باشندوں کو ہی بھگتنا پڑیگا۔
تحریک انصاف صوبہ میں گزشتہ 9سال سے برسراقتدار ہے جس کے پہلے دور میں جہاں قیام امن کا کریڈٹ لیا جارہا تھا، اب اس کے دوسرے دور حکومت کے آخر میں بظاہر صوبہ پھر سے بدترین حالات کے دلدل میں دھنستا دکھائی دے رہا ہے، تحریک انصاف کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ اگر اس نے فوری اور موثر حکمت عملی کے ذریعے بدامنی کے خاتمہ کیلئے اقدامات نہ کئے تو اے این پی کی طرح سب سے بھاری قیمت اسے بھی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔
اے این پی وہ پہلی جماعت تھی جس نے سال ڈیڑھ سال قبل ہی حالات میں تبدیلی اور ابتری کی طرف اشارے شروع کردئیے تھے اور چند ہفتے قبل جب پی ڈی ایم کے مشترکہ پریس کانفرنس میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ نہ صرف تحریک انصاف کے بعض وزرا بلکہ وزیر اعلیٰ تک عسکریت پسندوں کو بھتہ دے رہے ہیں تو اس پر کافی لے دے ہوئی اور دونوں جماعتوں کے درمیان کافی گرما گرم بیان بازی بھی شروع ہوئی لیکن اب جو حالات سامنے آرہے ہیں ان میں اے این پی کے خدشات حقیقت بن کر سامنے آنے لگے ہیں۔
ان ہی حالات میں اس وقت خیبر پختونخوا میں ضمنی الیکشن کیلئے بھی میدان گرم ہونے جارہا ہے، صوبہ کے چار قومی اسمبلی کے حلقوں پر ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری کیا جاچکا ہے ، ضمنی انتخابات نے اس وقت اہمیت اختیار کرلی جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تمام حلقوں پر خود امیدوار بننے کا اعلان کیا، گویا اس وقت وہ صوبہ میں چار حلقوں میں بیک وقت اترنے کیلئے تیاریاں کرچکے ہیں جن میں ضلع پشاور، مردان، چارسدہ اورقبائلی ضلع کرم کے چار حلقے شامل ہیں۔
اپوزیشن کے فیصلہ کے تحت چارسدہ اور پشاور کی نشستیں اے این پی جبکہ مردان اور کرم کی نشستیں جے یو آئی کے حصہ میں آئی ہیں ، چارسدہ سے عمران خان کے مقابلہ کیلئے ایمل ولی خان میدان میں اترے ہیں، مردان میں عمران خان کا مقابلہ جے یو آئی کے رہنما اور سابق ایم این اے مولانا محمد قاسم اور کرم میں جمیل اورکزئی کریں گے جہاں تک پشاور کا تعلق ہے تو یہاں سے عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنما حاجی غلام احمد بلور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیساتھ ایک مرتبہ پھر معرکہ آرائی کرنے والے ہیں، حاجی غلام بلور ماضی میں اس حلقہ سے پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں جبکہ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے 1990میں اسی نشست پر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شکست دی تھی تاہم 2013کے انتخابات میں غلام بلور یہ نشست پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ہار گئے تھے جس کے بعد ضمنی الیکشن میں وہ پی ٹی آئی کو ہرا کر حساب کتاب برابر کرچکے ہیں۔
اس وقت تحریک انصاف کے مقابلہ میں عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم سمیت دوسری اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود مقابلہ کو کسی بھی صورت یک طرفہ قرار نہیں دیا جاسکتا، دوسرے حلقوں کی نسبت پشاور میں سخت مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے تاہم جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کے ووٹرز بھی کسی حد تک متذبذب ہوسکتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی نے واضح طور پر اعلان کیا ہوا ہے کہ ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد بھی وہ قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بنیں گے اور جیتی ہوئی نشستوں سے استعفیٰ دیا جائیگا، بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف کو استعفیٰ ہی دینا ہے تو اس کو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا تاہم پی ٹی آئی کے حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد کارکنوں کو متحرک رکھنے کیساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو ان کی حقیقت بھی دکھانا ہے۔