اسلام آباد (اے پی پی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے موقع پر ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی جانب سے ایسی قانون سازی کا تاثر ہے جو اپنے فائدہ کیلئے کی جا رہی ہے، پی ٹی آئی سے کہا اسمبلی جائیں، لیکن اس نے بائیکاٹ کر رکھا ہے، سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے، ملک غیرمعمولی حالات سے گزر رہا ہے، آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کرینگے، قانون سازی میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے، صرف بنیادی حقوق کیخلاف ترامیم کاجائزہ لینگے، اعلی عدلیہ نیب قانون پر تنقید کرتی رہی، 90 دن کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں زیادہ سے زیادہ 14 روز کا ہوتا ہے، ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لیکر صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں۔ آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کرینگے۔ جبکہ دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ نیب کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن انکے داغ نہیں دھلتے۔نیب قانون ترامیم کےخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت جمعہ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس ریمارکس میں کہا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، عدالت کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی، اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ غیر معمولی حالات ہیں، پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی جانب سے ایسی قانون سازی کا تاثر ہے جو اپنے فائدہ کیلئے کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ قانون سازی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، ہم محض آئین کے محافظ ہیں، عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کریگی۔ صرف بنیادی حقوق کیخلاف ترامیم ہونے کے نکتہ کا جائزہ لینگے۔ ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعائتیں بھی دی گئی ہیں۔ پلی بارگین کرنے والوں کے شواہد کو ناقابل قبول ہی قرار دیا گیا ہے۔ فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے۔ سابق حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی کا بائیکاٹ کر کے بیٹھے ہیں۔ پی ٹی آئی کو کہا تھا کہ اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں۔ سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ آدھے ارکان نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، اسمبلی میں موجود ارکان اپنے ذاتی فائدہ کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں۔ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، تحقیقات میں مداخلت پر از خود نوٹس لیا تھا۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے التواء کی درخواست کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ کورونا ہو جانے کی وجہ سے جواب عدالت میں جمع نہیں کروا سکا، عدالت تفصیلی جواب جمع کرانے کیلئے مہلت دے۔مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ اعلی عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی، ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے داغ نہیں دھلتے۔ یورپ میں استقاط حمل کا مسئلہ عدالتوں میں نہیں پارلیمان میں حل ہوا، عدلیہ کا کردار ایمپائر کا ہوتا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ ہمیشہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ امریکی سپریم کورٹ کی مثال اس حوالے سے درست نہیں لگتی اگر اسمبلی نیب قانون ہی ختم کر دے تو عوام اس کیخلاف کس فورم پر جائے گی؟ عدالت کے باہر سیاسی موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے، کیا سیاسی موسم کا عدالت کے اندر اثر ہونا چاہیے؟ کیا عدالت میں صرف آئین اور قانون کا موسم نہیں رہنا چاہیے؟۔ بعد ازاں عدالت عظمٰی نے عمران خان کے وکیل کی جانب سے التواء کی درخواست قبول کرتے ہوئے کیس کو سماعت یکم ستمبر تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔