عثمان عامر
وطن عزیز کی آزادی کو پچھتر برس مکمل ہوگئے۔ کہنے کو تو یہ آزادی کے پچھتر سال ہیں لیکن اس کے پیچھے لاکھوں لوگوں اور صدیوں کی جد و جہد ہے، آج جو ہم اس آزاد فضا میں سانس لیتے ہیں اس کے پیچھے ان گنت آزمائشیں اور مشکلات تھیں۔ آزادی کی جد و جہد میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہا۔ قائد اعظم نے نوجوانوں کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا اور واقعی نوجوانوں نے تحریک آزادی اور تعمیر پاکستان میں ایسا ہی کردار ادا کیا لیکن آج پچھتر برس گزرنے کے بعد کے نوجوانوں میں اس ذمہ داری کو اٹھانے کی اہلیت نظر نہیں آرہی وہ قائداعظم کے فرمان کی لاج رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کی ترقی اور فلاح کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں، اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں۔ انہیں تاریخ آزادی کے اسباب و واقعات اور موجودہ معاملات و مسائل اور ان کے حل کی بالکل بھی پروانہیں ہے۔
اسے غفلت کہا جائے، نااہلی ، بے حسی، سادگی، نالائقی کہا جائے یا جرم و خطا سے اسے تعبیر کیا جائے۔ جس نوجوان نسل کے کاندھوں پر وطن عزیز کے روشن مستقبل کی تمام تر ذمہ داریوں کا بھاری بھرکم بوجھ ہے، اس نے اپنے فکر و شعور کو بالکل بے مہار چھوڑ رکھا ہے۔ کیا اس طرح وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکتے ہیں؟ مقام افسوس یہ ہے کہ نوجوان نسل آنکھوں پر پٹی باندھے اندھیری کھائی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے، انہیں اس کا ادراک تک نہیں ہے۔
وہ تاریخ آزادی اور اس میں وارد ہونے والی ہلاکت خیز داستانوں کو محض الف لیلوی قصے گردانتے ہیں، انہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں ہے کہ وطن کے لیے کتنے برسوں کی جد و جہد کی گئی تھی، وہ شاید 1857 کی جنگ آزادی کو محض دو بادشاہوں کے درمیان لڑی جانے والی طاقت کی جنگ سمجھتے ہیں۔
قوم کے نوجوان قائداعظم کے اقوال اور ان کے نظریات کو صرف امتحان کا پرچہ حل کرنے کی حد تک سمجھتے ہیں، انہیں نظریہ پاکستان کا مفہوم تک ٹھیک سے معلوم نہیں اور نہ ہی آباء و اجداد کی پاکستان کے لیے جدوجہد اور قربانیوں سے واقف ہیں، جبکہ پاکستان کا نظریہ اور اس کی بقاء کا ذمہ نسلِ نو پر ہے۔ ہمارے نوجوان ہمارے ہمارے وطن کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔
نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی اس زبوں حالی پر اہل علم اور مقتدر طبقے کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور یہ لازمی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس کرایا جائے، ان کو آزادی کے اصل مقصد اور مفہوم سے آگاہ کیا جائے۔ نوجوانوں خصوصا طلبا میں قرارداد مقاصد اور دو قومی نظریے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔
اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں تاریخ پاکستان کے حوالے سے مثبت سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے، تاکہ طلبا اس میں دل چسپی لے کر اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں کو یاد رکھیں کیوں کہ جو قومیں اپنی تاریخ اور اپنے ماضی کو فراموش کر دیتی ہیں ان کا مستقبل ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے اور جو اقوام اپنی تاریخ سے منہ موڑ لیتی ہیں تو وہ آئندہ کی تاریخ میں فراموش کردی جاتی ہیں۔
کسی ملک کی آبادی میں بلاشبہ ہر فرد کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے،تاہم نوجوان نسل کی اہمیت اور ذمہ داری کہیں زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی درست ہے کہ ان کے مسائل بھی ہر نسل سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ معاشرہ مغرب کا ہو یا مشرق کا، صورتِ حال انیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہی ہوتی ہے اور یہ فرق قومی سطح پر پالیسی سازی اور عمل کے طریقہ کار میں ہوتاہے۔
ترقی یافتہ اقوام اس مسئلے کو سنجیدگی کی نظر سے دیکھتی ہیں اور ترقی پذیر اقوام ان میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ قیام ِ پاکستان سے دورِ حاضر تک نوجوان نسل ہر طبقہ فکر کے لئے اہمیت کی حامل رہی ہے۔ علامہ اقبال، قائد اعظم اور دیگر رہنماؤں کے نزدیک سب سے بڑی قوت نوجوانان ملت ہی تھے۔ اقبال نے انہی سے وابستہ امیدوں کے سہارے اپنی محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا کہ:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
تاریخی طور پر مسلم ہے کہ نوجوان نسل نے تحریکِ پاکستان میں اپنی کوششوں کے ذریعے مسلم لیگ کو توانا کیا، جوق در جوق قافلوں کے ولولوں کوبڑھایا یہی وجہ ہے کہ آزادی حاصل ہوتے ہی سب سے پہلے قائدِ اعظم نے اس نسل اور اس کی تعلیم و تربیت کی اہمیت کواُجاگرکیا۔ قیامِ پاکستان کے ایک ماہ بعد طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔اپنے آپ کو عمل کے لئے تیار کریں، یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ “
پاکستان کو اپنے نوجوانوں اور بالخصوص طلبہ پر فخر ہے جو آزمائش اور ضرورت کے وقت ہمیشہ صفِ اول میں رہے لیکن بین الاقوامی سازشوں اور سیاسی مہروں کی بساط نے درج بالا مقاصد کی حامل نسل کے کچے ذہنوں کو براہ راست نشانہ بنایا، جس سے وہ اپنا مقام و مرتبہ اور مقصد بھول کر فضولیات میں جا الجھے۔ نہ صرف حلیہ بلکہ مشاغل کی تبدیلی بھی نظر آنے لگی۔ ان کی سوچوں کو اس قدر زہر آلود کردیاگیا کہ ملکی استحکام کا جذبہ رکھنے والے نوجوان، کھوکھلے نعروں کی نذر ہو گئے۔
اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملکی استحکام کو ابتدائی طور پر ملکی تناظر اور بعد ازاں ملکی کمزوری میں تبدیل کیا جانے لگا۔ اس تمام عمل میں غیر محسوس طریقوں سے پاکستان کی نوجوان نسل کو استعمال کیا جاتا رہا۔ مذہبی، سیاسی، معاشرتی انتشار نے ان کے لیے مواقع محدود کردیے ہیں اور ان کی ذہنیت محض سطحی سی ہوکر رہ گئی ہے اور وہ اپنا ملک کو چھوڑ کر دیار غیر میں جا بسنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
آج وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ وطن عزیز کے نوجوانوں میں آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے جو وطن اتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے اس کا شکر ادا کرنا اور خوشی منانا فطری عمل بھی ہے اور ایک متحد قوم کے لیے ضروری بھی لیکن خوشی منانے کا جو راستہ آج کی نوجوان نسل نے اپنایا ہے وہ انہیں صرف گمراہی اور اندھیروں میں لے جانے کا سبب ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج کا نوجوان اپنی سرگرمیوں کو مثبت انداز میں آگے بڑھائے اور اس راستے کا تعین کرے جو ملکی مفادات کے لیے بہتر ہو اور جس سے ملک و قوم کی فلاح و بہبود یقینی ہو۔