آزاد کشمیر حکومت کا کہنا ہےکہ مالی معاملات میں آئے روز رخنہ ڈالنا وفاقی حکومت کا معمول بن چکا ہے۔ بجٹ پر کٹوتی نے ترقیاتی عمل منجمد جبکہ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے PDM حکومت کے زعماء کو آزاد کشمیر کی حساسیت اور جغرافیائی حیثیت کا اندازہ نہیں ۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے پہلی مرتبہ کھل کے اسلام آباد میں قائم PDM حکومت پر تنقید کی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں قائمPDM حکومت اور PTI میں جاری سیاسی رقابت کے اثرات آزاد کشمیر میں نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔ اور بعض حلقوں کے مطابق حکومت آزاد کشمیر کی الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داریاں واپس لینے کی خواہش اور مالیاتی بحران کی آڑ میں بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی یہ چال بھی ہو سکتی ہے؟ جبکہ سنجیدہ مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر نے مالیاتی بحران کا اظہار کرکے درست اقدام اٹھایا ہے گو کہ سیاسی اختلافات بھی فنڈز کی فراہمی میں جہاں حائل ہو سکتے ہیں وہاں اس بات کا احساس و ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ وطن عزیز پاکستان سنگین مالی بحران کا شکار ہے۔
ایسے میں غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرنے اور آزاد کشمیر میں بے پناہ قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کی حکمت عملی اپنائی جانی چاہیے۔ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مالی بحران کے باوجود آزاد کشمیر کی حساسیت کے تناظر میں آزاد کشمیر کو درکار فنڈز کی اجرائیگی میں فراخدلی کا مظاہرہ کرے۔ صدر PPPآزاد کشمیر و ممبر اسمبلی چوہدری محمد یاسین کاکہنا ہے کہ عمران خان کا وطن دشمن بیانیہ شہباز گل کے گلے کا پھندا بن گیا ہے۔ افواج پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوششیں بدترین ملک دشمنی کے مترادف ہیں۔
شہباز گل بڑے بول بولنے کا عادی تھا اور آج ایک دن جیل میں رہ کر اپنی اوقات پر آگیا ہے۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی برانچز آزاد کشمیر میں بھی ہیں۔ مظفرآباد اور اسلام آباد میں مختلف الخیال و نظریات قائم حکومتوں کی وجہ سے ہر دو جانب کھل کر تنقید کرنا سیاسی کلچر کا معمول بن چکا ہے۔ کچھ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ مستقل قریب میں آزاد کشمیر کوسیاسی عدم استحکام کے سائے اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ کشمیر ایشو پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔
آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں پاک فوج کی گاڑی حادثے کا شکار ہونے سے 8فوجی شہید ہوگئے ہیں جس سے آزاد کشمیر کی فضا سوگوار ہوگئی ہے۔ حکومت آزاد کشمیر، اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور سول سوسائیٹی نے اس المناک حادثے میں شہید ہونیوالے فوجیوں کیلئے گہرے رنج و غم اور مسلح افواج پاکستان سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات میں حائل رکاوٹیں اور انہیں دور کرنے میں اعلیٰ عدلیہ کے کلیدی کردار کا اگر سرسری جائزہ لیں تو آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان ،سینئر جج خواجہ محمد نسیم اور جسٹس رضا علی خان پر مشتمل 3رکنی بینج نے حکومت کی جانب سے راجہ سجاد ایڈووکیٹ ، راجہ امجد علی خان ایڈووکیٹ ، راجہ گل مجید ایڈووکیٹ، ہارون فیاض مغل ایڈووکیٹ، وحید بشیر ایڈووکیٹ بار کونسل اور وکلاء کی جانب سے پیش ہوئے۔
راجہ سجاد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے 28ستمبر کی دی گئی ڈیڈ لائن میں 6ماہ کی توسیع کی جائے جبکہ ہائی کورٹ اور بار کونسل کے وکلاء نے توسیع کی استدعا مسترد کرنے کے حق میں دلائل دئیے۔ معزز عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد، متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے مختصر حکم نامہ جاری کیا کہ بلدیاتی انتخابات 30نومبر سے پہلے ، ہر صورت ڈویژن وائز منعقد کروائے جائیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ریاست بھر کے عوام اور وکلاء برادری نے انتہائی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے حق و سچ اور عدل و انصاف کی فتح قرار دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں وزیراعظم وقت سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم نے 21نومبر 1991 میں آخری مرتبہ بلدیاتی الیکشن کروائے تھے۔
گزشتہ 31سالوں میں عوام کےووٹ لیکرہر آنیوالی حکومت نے بلدیاتی انتخابات کروانے کے سیاسی اعلانات تو کیے لیکن ترقیاتی پراجیکٹس کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے کے خوف سے عملاً تاخیری حربوں کا استعمال تاحال جاری ہے۔ اب اگر گزشتہ 3دہائیوں سے عوام کا چھینا گیا حق بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی شکل میں ممکن ہوا تو اس کا تمام تر کریڈٹ آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ کو جائے گی۔
دوسری جانب چیف جسٹس ہائی کورٹ صداقت حسین راجہ اور جسٹس شاہد بہار پر مشتمل 2رکنی پینچ نے مقدمہ عنوانی راجہ خالد سیاب خان بنام آزاد حکومت کی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے 10ہزار سے کم آبادی والی 43یونین کونسلز کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس سے آئین کے مغائر کیے گئے اقدام کا ازالہ اور ریاست کے عام شہریوں کے معزز عدالت پر مزید اعتماد بحال ہوا ہے۔
آزاد کشمیر میں ریکارڈ اور تباہ کن بارشوں کے باعث ندی ، نالوں اور دریائوں میں طغیانی اور لینڈ سلائیڈنگ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (SDMA)کیمطابق مون سون بارشوں میں جون سے اب تک 12خواتین سمیت 34افراد جاں بحق اور 17زخمی ہوئے ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں سے 368 مکانات ،14دکانیں ،2گیسٹ ہائوسز اور 3منی پاور پراجیکٹ تباہ ہوئے ہیں کئی جانوروں کی ہلاکت کے علاوہ 4گاڑیاں اور 2موٹر سائیکل پانی میں بہہ گئے ہیں جبکہ لمپی سکن کی بیماری کے باعث 179مال مویشیوں کی اموات واقع ہو چکی ہے۔ متاثرین مون سون بارشوں اور لمپی سکن نے حکومت آزاد کشمیر سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ اس قیامت خیز مہنگائی اور اس پر جانی و مالی نقصان نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔ اسلئے فوری طور پر معاوضہ جات کی ادائیگی کی جائے۔