پا کستا ن تحریک انصاف کے لاہور میں ہونے والے تاریخی جلسے میں پاکستان مسلم لیگ ( ق ) کے رہنماوں چو ہدری پرویز الہی اور دیگر کی شرکت سے مسلم لیگ ( ق) تحریک انصا ف کی (بی) ٹیم د کھا ئی دینے لگی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے فرنٹ مین کے طور پر کھیلنے سے ق لیگ وقتی طور پر تواپنی شہرت کاگراف بلند کرلے گی۔ تاہم مستقبل میں (ق) لیگ کے لیے اپنا علیحدہ سیاسی تشخص برقرار رکھنا مشکل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ق لیگ جو پہلے ہی آپسی تضادات اور سیاسی خلفشار کا شکا رہے کیااس کے لیے تحریک انصاف کی بی ٹیم بن کر کھیلنا سود مند ثابت ہو سکے گا۔۔؟
صرف دس سیٹوں کی بنیاد پر وزارت اعلی کا منصب لینے والی ق لیگ کے لیے اقتدار کے شب و روز نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اقتدار کا آخری سال کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں ق لیگ کو وزارت اعلی ملنے سے اسے بہت سے سیاسی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی بلاشبہ ایک زیرک اور سمجھدار سیاست دان ہیں جو سیاسی وفاداریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ عذداریاں بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔اقتدار سنبھالنے کے ساتھ انہوں نے سب سے پہلے اپنے پیاروں اور حلقہ انتخاب کےلوگوں کو نوازنے اور مراعات دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
گجرات کو ڈویژن کا درجہ دلوانا، اپنے من پسند افسر کو پرنسپل سیکرٹری لگانا،سرکاری ملازمین کے لیے مراعات کے اعلانات ایسے اقدامات ہیں جس کے لیے پرویز الہی اور ق لیگ کو بلاشبہ سیاسی فائدے پہنچیں گے۔ عمران خان کے حالیہ جلسہ لاہور نے بلاشبہ کامیابی کے ریکار ڈ توڑے ہیں نہ صرف لاہوریوں بلکہ گردونواح کے شہریوں نے بھی جلسہ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اتنی کثیر تعداد میں عوام سے خطاب میں وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے عمران خان اور تحریک انصاف کے بیانیے کی حمایت کی اور ان کو بھر پور انداز میں سپورٹ کیا۔ اور تحریک انصاف کے ہم آواز بن گئے۔
سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اقدام نے شکست وریخت کا شکار ق لیگ کمزور کیا ہے۔ اور ق لیگ کے لیے الگ سیاسی تشخص مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کی تابعداری میں پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے تمام حدیں عبور کردی ہیں۔ پرویز الہی کی کابینہ جو تحریک انصاف کے وزرا اور مشیران پر مشتمل ہے انہوں نے اپنےقلمدان سنبھالتے ہی سیاسی طور پر مقبول فیصلے اور اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
محکمہ تعلیم کی بات کی جائے تو اسکول ایجوکیشن ، ہائیر ایجوکیشن اور سپشل ایجوکیشن سمیت دیگر میں فوری طور پر اساتذہ کے تبادلوں سے پابندیاں ختم کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔ جس سے نہ صرف اساتذہ کی حمایت انہیں حاصل ہوگی بلکہ متوقع انتخابات میں من پسند افراد کی تعیناتیاں من پسند جگہوں اور حلقوں میں کی جاسکیں گی۔
اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی بھرتیوں کے اعلانات بھی کر دیے گئے ہیں۔ جس سے شہریوں بلخصوص نوجوانوں میں جو پہلے ہی تحریک انصاف کا ووٹ بنک تصور کی جاتی ہے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ محکمہ جنگلات، فشریز ، لائیو سٹاک،سی اینڈ ڈبلیو سمیت دیگر محکوں میں بھی عوامی مفاد کے ساتھ ساتھ نمایاں نظرا ٓنے والے اور سیاسی فائدہ پہنچانے والے منصوبے شروع کیے جا رہےہیں۔ تحریک انصاف کے وزرا ومشیران آئندہ انتخابا ت کو مد نظر رکھتے ہوئے دن رات اقدامات میں مصروف ہیں۔ ان اقدامات سے تحریک انصاف سیاسی مقبولیت حاصل کر رہی ہے جبکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سے بھی تحریک انصاف کے سیاسی گراف میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب اگر ن لیگ اور اتحادیوں کی بات کی جائے تو وہ اس وقت "مشکل فیصلے"کرنے میں اس قدر مگن ہیں کہ عوام سے بالکل بے خبر ہو چکے ہیں ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بین الاقوامی سطح پر کمی جبکہ پاکستان میں قیمتوں میں اضافےسے ن لیگ کے خلاف شہریوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں نافذ کیے جانے والے ٹیکس اور گھریلو بجلی کے بلوں میں اضافے سے ن لیگ کی سیاسی مقبولیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ عوام نہ صرف غم و غصہ میں ہیں بلکہ شدید مشتعل بھی ہیں۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے اتحادی حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریوںنے حکومتی کا رکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ اور حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ سیلاب متاثرین کی بحالی اور امداد حکومت کے لیے چیلنج بنی ہو ئی ہے۔ میعشت کی صورتحال کے باعث امدادی کاروائیوں اور بحالی کے اقدامات میں حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہاہے۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمے اور دیگر قائدین پر مقدمات نے اتحادی حکومت کی بوکھلاہٹ کو برہنا کر دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندی کاسمیت تمام تر صورتحال کا سیاسی فائدہ بھی تحریک انصاف کو ہو رہا ہے۔ ، اور وہ عوامی حمایت اور ہمدردی لینے میں کامیاب ہو رہی ہے ۔ جس کی ایک جھلک ضمنی انتخابات میں واضح دکھائی دی ہے۔ اس تمام تر صورتحال سے قطعہ نظر عام آدمی کی مشکلات دو چند ہو چکی ہیں۔ اس کے لیے دو وقت کی روٹی،چھت کا سایہ، یوٹیلیٹی بلز،سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہےکہ سیاسی مفادات اور سیاست کو کچھ وقت کےلیے بالائے طاق رکھ کر عوامی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائےاور عوام کو ریلیف دینے کےلیے تمام سیاسی جماعتیں اقدامات کریں۔
آخر میں کچھ بات پنجاب کی سرکاری جامعات کی بھی کر لی جائے۔ پنجاب یونیورسٹی سمیت پنجاب کی پانچ اہم سرکاری جامعات مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں۔ جبکہ چار کے وائس چانسلر ز آئندہ کچھ ہفتوں میں اپنی مدت ملازمت پوری کر لیں گے۔ رواں برس مجموعی طور پر ۹ وائس چانسلرز کی تقرری پنجاب حکومت کے ذمے ہے، گورنر پنجاب جو جامعات کے چانسلربھی ہیں اور وزیر اعلی پنجاب کو اس حوالےسے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور جامعات کے وائس چانسلر ز کی تقرری کو سیاست سے پاک میرٹ پر بروقت کرنا چاہئے ۔