• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیاسی لڑائیوں نے ملک کو معاشی دلدل میں پھنسا دیا

عمران حکومت کے جانے کے بعد عوام کو توقع تھی کہ نئی حکومت کچھ مہنگائی میں کمی لائے گی اور ان کے حالات میں کچھ بہتری لائے گی مگر حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں مہنگائی کی شرح 42 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے ملک کے سیاسی و معاشی ہالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں، ہر آدمی پریشان ہے کہ ملک کا کیا ہوگا کشمکش و تنازعات میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان حکومت اور ادارے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ سیاسی لڑائی نے ملک کی معاشی حالت ابتر کردی ہے اور معاشی دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔ 

عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کی گرفتاری اور ان پر تشدد کے مبینہ الزامات سے کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے حکومت تشدد کے الزامات کو مسلسل مسترد کر رہی ہے جبکہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس تشدد کرنے کی وڈیوز آگئی ہیں اور وہ وقت آنے پر انہیں طشت ازبام کردیں گے۔ 

اگر واقعی عمران خان کے پاس تشدد کرنے کی وڈیوز موجود ہیں اور یہ سچ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا تشدد کرنے والے وڈیوز بھی بناتے رہے ہیں اور انہوں نے یا کسی نے خفیہ طور پر وڈیوز بنا کر عمران خان کے حوالے کر دی گئی ہیں اور اگر یہ وڈیوز عمران خان نے کسی اعلیٰ عدالت میں پیش کردیں تو پھر حکومت دامن کیسے بچا سکے گی اور حکومت کی سیاسی پوزیشن کیا ہوگی کیونکہ ڈاکٹر شہباز گل پر مبینہ تشدد کے خلاف حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے اندر بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں جبکہ ایک دو حکومتی وزراء نے بھی اس اقدام کو غلط قرار دیا ہے۔ 

عمران خان نے ڈاکٹر شہباز گل سے اظہار یکجہتی کیلئے اسلام آباد میں ایک ریلی بھی نکالی جو بعد میں ایف 9پارک اسلام آباد میں جلسے کی صورت اختیار کر گئی جس میں عمران خان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس دائر کرنے کا اعلان کا اعلان بھی کیا۔ عمران خان بھی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور کسی صورت پیچھے ہٹنے یا جھکنے کیلئے تیار نہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں عوام کی حمایت انہیں حاصل ہےاور وہ لوگوں کو ایک کال پر جمع کر لیتے ہیں۔ 

سیاسی مبصرین کے مطابق اس بات کا بھی امکان ہے یا تو عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں کو گھروں پر نظربند کر دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں نااہل قرار دے دیا جائے۔ عمران خان نے بھی ملک بھر میں جلسوں کا اعلان کیا ہے اور پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کو پابند کر دیا ہے کہ وہ عمران کی کوئی تقریر براہ راست نہیں دکھا سکیں گے اور ریکارڈ شدہ تقریر دکھائیں گے۔ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ 

ادھر میاں نواز شریف کی بھی وطن واپسی کی اطلاعات ہیں مگر سنا ہے میاں نواز شریف نے واپسی کیلئے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ مجھ پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں، مجھے واپسی پر گرفتار نہ کیا جائے بصورت دیگر اکتوبر میں الیکشن نہیں ہونے چاہئیں ان کے لندن میں مقیم بعض مشیروں نے میاں صاحب کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہی الیکشن جیتے گی اور اگر عمران خان الیکشن جیت گئے تو کیا وہ میاں نواز شریف کو ملک چھوڑنے دیں گے یہ اہم سوالات ہیں جن کی وجہ سے میاں نواز شریف کی واپسی میں تاخیر ہو رہی ہے اگر میاں نواز شریف ملک میں واپس آبھی جاتے ہیں تو وہ شدید مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوں گے۔آئندہ آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی ہوگی۔ 

حکومت نے آئی ایم ایف کو 80 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھانے کا تحریری جواب دے دیا ہے عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور پاکستان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو حکومتی جماعت کے اندر بھی بعض لیڈر اس مہنگائی کے خلاف بولنا شروع ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) لاہور سے بھی ہار گئی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت اپنے قدم مضبوط کر رہی ہے۔ 

عمران خان بھی چاہتے ہیں کہ الیکشن چاہے تاخیر کا شکار ہوں وہ پنجاب میں اپنی پوزیشن مستحکم کر ین اور لوگوں کو کچھ ریلیف دے دیں یہی وجہ ہے پنجاب حکومت میں بہت سے پروگرام شروع کر دیئے ہیں۔ ادھر آئی ایم ایف تمام کڑی شرائط کے باوجود قرض نہیں دے رہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر خود امریکی لیڈروں سے بات کی اور اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف قرضے دے دیگی۔ کچھ سعودی عرب اور چین نے بھی قرضوں کی واپسی موخر کی ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی ہے مگر اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا۔

ایک دفعہ پاکستان میں جس چیز کی قیمت بڑھ جائے تو واپس نہیں آتی کچھ ڈالر کے نرخ بڑھنے سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ تاجر منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں جن پر حکومت کا کوئی چیک نہیں۔ اس وقت ملک کی جو معاشی حالت ہے اس میں تمام سیاسی قوتوں کو بیٹھنا چاہئے۔ مگر عمران خان الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بغیر اس حکومت کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار نہیں اگر حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اندازہ ہوگا کہ عمران خان اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہیں کچھ ان کی اپنی پیدا کر دہ ہیں۔

انہوں نے 10 ووٹوں کی اکثریت سے قائم اتحادی حکومت کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلے کرنے کی کوشش کی یہ بات کوئی مانے یا نہ مانے اس ملک میں جب بھی الیکشن ہوئے اور سیاسی حکومت قائم ہوئی وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئی خود عمران خان 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکومت میں آئے۔ عمران خان نے غلط فیصلوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر تین سال سے سبز باغ دکھاتے رہے اور کچھ نہ کرسکے ۔ ان کے ساتھی بھی کہتے ہیں کہ خان صاحب سے کوئی بات منوانی بہت مشکل ہے۔ سیاست میں صرف ضد نہیں ہونا چاہئے لچک بھی ہونی چاہئے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں اور ادارے اور غیر ملکی قوتیں عمران خان کے خلاف ہیں۔ وہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر مشکلات کے سمندر کو کیسے عبور کرتے ہیں اور کیسے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اگر دوسری طرف نظر دوڑائی جائے جتنے بڑے جلسے عمران خان کر رہے ہیں اتنے بڑے جلسے حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں نہیں کرسکتیں۔ عمران خان کی ایک کال پر پورے ملک میں لوگ باہر آجاتے ہیں ۔ اور یہ بات حیران کن ہے۔ عوام میں عمران کیلئے اتنی حمایت کیسے پیدا ہوگئی ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید