رئیس فروغ
جب لہرکے آگے لہرچلے
اور لہر کے پیچھے لہرچلے
ساحل کی ہوا میں لہراتا
پانی کا بڑا سا شہرچلے
کبھی سورج ہے کبھی سایہ ہے
یہاں پل پل رنگ بدلتے ہیں
اس بھیگی بھیگی ریت پہ ہم
جب ننگے پیروں چلتے ہیں
ان نکھرے نکھرے ذروں میں
کوئی پھول کوئی مہتاب لگے
یہ اپنے کلفٹن کا منظر
اک پیارا پیارا خواب لگے
تمہیں اپنے گھر لے جانے کو
کئی گھونگھے گول سڈول ملے
اپنا شوکیس سجانے کو
ہمیں سیپ کئی انمول ملے