• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناہید طاہر

سات سالہ پری، والدین کے ساتھ پاکستان پنی دادی کے پاس چھٹیاں گزارنے آئی تھی۔ برسات کا موسم تھا، بارش اس کے لیے بالکل انجان تھی۔ کیونکہ اس کی پیدائش ایک صحرائی ملک میں ہوئی تھی جہاں بارش شازونادر ہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار بادل جب آب کی تاب نہ لاتے ہوئے برس پڑتے، تب سارا ماحول، یومِ عید کی نوید سنا جاتا۔ پری کھڑکی کے قریب بیٹھی گھنٹوں موسلا دھار بارش سے لطف اندوز ہوتی۔ 

اسے برسات کی بوندوں میں ایک عجیب سی رِم جِھم کی جھنکار سنائی دیتی اور بارش کا لگاتار گرنا بہت اچھا لگتا خصوصاً جب لوگ اس سے بچنے کے لیے رنگ برنگی چھتریوں کو کھول کر چلتے پھرتے نظر آتے۔ وہ بڑے ہی اشتیاق سے انہیں دیکھتی۔ پری کا دل خواہش کرنے لگا کہ اس کی بھی کوئی چھتری ہو جسے وہ رِم جِھم برسات میں اٹھائے محلے بھر میں گھومتی پھرے۔ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا، بارش کا موسم بھی وقت کا دامن تھامے آگے بڑھ گیا۔ اس کے ساتھ ہی چھٹیاں بھی ختم ہوگئیں۔ امی واپسی کی تیاری کررہی تھیں۔ پری اپنی دادی ماں کے قریب بیٹھی اداس تھی۔ دادی ماں نے اس سے کہا،"پری تم اپنی آنکھیں بند کرو۔ آج میں تمہارے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ "

"سچ " اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ دادی ماں نے اس کی گود میں تحفہ رکھا۔ پری نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک خوبصورت چھتری تھی۔ وہ بہت خوش ہوئی لیکن بارش کا موسم گزر چکا تھا ،چھتری کو بارش میں استعمال کرنے کی جو آرزو اور خواہش تھی وہ حسرت بن کر دل میں رہ گئی۔ اسی حسرت کو سینے میں دبائے، وہ اپنے والدین کے ساتھ واپس چلی گئی۔

چھتری تو آگئی لیکن بارش نہیں آئی۔ ننھی پری مسلسل کئی دنوں تک بارش کا انتظار کرتی رہی۔ اس ننھی سے جان کو پتہ نہیں تھا کہ ریگستان سے بارشوں کی کوئی دوستی نہیں ہوتی، آخر وہ انتظار سے تھک گئی۔ ایک دن وہ اپنی امی سے بارش کی ضد کرنے لگی۔

"امی مجھے بارش چاہیے۔۔۔بس۔۔۔!‘‘

"ارے یہ کیا ضد لےکر بیٹھ گئی ہو۔‘‘

” امی پلیز بارش لادیں۔۔۔۔‘‘

” بیٹی یہ تو اللہ تعالی کی دسترس میں ہے۔ "

"مجھے کچھ نہیں سننا” وہ رونے لگی۔ "سنو میں تمہیں ایک ضدی بچے کی کہانی سناتی ہوں ۔” پری نےکہانی کا سن کر جلدی سے آنسو صاف کی اور امی کی گودی میں چڑھ کر بیٹھ گئی۔

"ایک معصوم سا بچہ جو بالکل تمھاری طرح ضدی تھا اسے آسمان پر چمکتا چاند چاہیے تھا،"جیسے تمھیں بارش، چمکیلے روشن چاند کو دیکھ کر وہ معصوم ضد کرنے لگا کہ کسی طرح اسے چھونا ہے۔

ماں پریشان بہت بہلایا لیکن ضدی بچے نے اپنی ضد ترک نہ کی، تب ماں نے بڑے سے آنگن کے حوض کو پانی سے بھر دیا کچھ ہی دیر میں پانی پر چاند کا خوبصورت عکس جھلملا اٹھا۔ ماں بچے کو حوض کے قریب لائی اور چاند دیکھایا۔ وہ خوشی سے کبھی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھتا اور کبھی پانی میں ارتعاش تے چاند کو۔

” امی ایک ترکیب آئی ہے‘‘۔ کہانی کے اختتام پر پری نے خوشی سے چہک کر کہا۔

"کس بات کی۔؟ "

"ایک منٹ‘‘،وہ دوڑی اور اپنی چھتری اٹھا لائی۔ یہ دیکھ کر امی ماتھا پیٹ کربولیں، ” پھر سے یہ چھتری اٹھا لائی ہو۔‘‘

’’کہاں جارہی ہو۔؟‘‘امی نے آواز لگائی۔ لیکن وہ رکی نہیں۔

کچھ دیر بعد امی اسے تلاش کرنے کی نیت سے اٹھیں، اس کے کمرے میں جھانکا وہ وہاں نہیں تھی۔

’’کہاں گئی۔۔۔؟ ‘‘ اچانک پری کی کھلکھلا ہٹ سنائی دی،امی آواز کی جانب دوڑیں وہاں جو کچھ دیکھا۔ پری کی معصومیت بھری دیوانگی پر حیران ہوئیں پھر وہ بےاختیار ہنسنے لگیں۔ وہ چھتری کھول کر شاور کے نیچے کھڑی معصومیت سے مورنی کی طرح ناچ رہی تھی۔

رِم جِھم رِم جِھم رِم جِھم رِم جِھم

بارش برسا چھم چھم چھم چھم

سچ ہے بچے ہی چاند اور بارش کی ضد کرسکتے ہیں۔