• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیلابی ریلے تباہی کی داستان چھوڑ گئے

بلوچستان میں تاریخ کی بدترین طوفانی بارشیں اور سیلابی ریلے اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی المناک داستانیں چھوڑ گئے ، بارشوں سے لسبیلہ سے ژوب ، چمن سے نصیرآباد ڈویژن تک بلوچستان کا وسیع ع عریض علاقہ تباہی سے دوچار ہوا ہے، ڈیڑھ ماہ کی مسلسل بارشوں اور پھر سیالابی ریلوں نے بلوچستان کے پہلے ہی سے انتہائی کمزور انفرسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کردیا، سڑکوں و ریلوے کا نیٹ ورک بری طرح سے متاثر ہوا جبکہ اسکولوں اور مراکز صحت سمیت دیر سرکاری عمارتوں کو بدترین نقصان پہنچا ہے، صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں مسلسل دوسری مرتبہ 5 ،5 دن کی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے، اب تک بارشوں سے جانبحق ہونے والوں کی تعداد 250 سے تجاوز کرگئی ہے، ہزاروں مکانات منہدم ہونے کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے بےیارومددگار پڑئے ہوئے ہیں۔ 

 متاثرین اس وقت بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ،گیس و بجلی کے نظام کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچنے سے بلوچستان کا وسیع علاقہ گیس اور بجلی کی سہولت سے محروم ہے،کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں کو کئی روز سے گیس کی فراہمی مکمل طور پر بند ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطابق متاثرہ علاقے میں مرمت کا کام اس وقت شروع ہوسکتا ہے جب پانی کی سطح نمایاں طور پر کم ہو سوئی سدرن گیس کا عملہ مشینری کے ساتھ متاثرہ پائپ لائن تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گا تو تباہ شدہ پائپ لائن کی مرمت کا کام شروع ہوجائے گا۔ 

تاہم کام شروع ہونے سے ختم ہونے تک دس دن درکار ہوں گے گیس کی بندش سے کوئٹہ میں ایل پی جی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے ایل پی جی کی ایک جانب قلت ہے تو دوسری جانب اس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے جس کے بعد کوئٹہ میں ضلعی انتطامیہ نے گرانفروشوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا ہے، یہی کچھ صورتحال بجلی کی ہےاس وقت کوئٹہ کو متبادل زرائع سے بجلی کی فراہمی جاری ہے اور کوئٹہ شہر کے تمام فیڈروں کو ضرورت کے مطابق باری باری بجلی فراہم کی جا رہی ہے بلوچستان کو اس وقت 700 میگاواٹ بجلی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ دستیاب بجلی صرف 250 میگاواٹ ہے۔ 

دوسری جانب 220 کے وی دادو، خضدار ٹرانسمیشن لائن سے بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے صوبے کے ایک بڑئے حصے خضدار ، وڈھ ، باغبانہ ، قلات ، نال ، زہری ، بیسیمہ ، گدر ، منگچر ، کھڈکوچہ اور سوراب ، مستونگ ، نوشکی ، چاغی ، خاران اور دالبندین کے علاقوں کو ان سطور کے تحریرکیے جانے تک بجلی کی فراہمی معطل ہے جبکہ لورلائی ، ژوب ، قلعہ سیف اللہ پشین ، قلعہ عبداللہ ، یارو ، علیزئی ، چمن کے سٹی فیڈروں کو ضرورت کے مطابق یومیہ صرف دو دو گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے ،سبی ، ڈیرہ مراد جمالی ، نصیرآباد ، جھل مگسی، اوستہ محمد میں بھی سیلاب کی وجہ سے جزوی بجلی بحال کی گئی ہے صحبت پور اور گنداخہ گرڈ اسٹیشن سیلابی پانی داخل ہونے کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کے پیش نظربند ہیں۔ 

بتایا گیا ہے کہ بجلی کی صورتحال نارمل ہونے میں مزید کم از کم ایک ہفتہ لگ سکتا ہے ، موبائل فونز کا نظام بھی گزشتہ کئی روز سے درہم برہم ہے ، بلوچستان کے عوام کی بڑی تعداد کا زریعہ معاش زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے زرعی شعبے کے تو اب آثار ہی نظر آتے ہیں جبکہ کچھ یہی صورتحال گلہ بانی کا ہے، ایک محتاط اندازئے کے مطابق بھی بلوچستان کو 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہچ چکا ہے تاہم حقیقی صورتحال سیلابی پانی گذرنے کے بعد سامنے آئے گی ، وزیراعظم میاں شہباز شریف اب تک بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے چار دورئے کرچکے ہیں گزشتہ روز انہوں نے صوبے کے متاثرہ ضلع جعفرآباد کا دورہ کیا، نہ صرف وزیراعظم بلکہ دیگر حلقے بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ مون سون کی حالیہ تباہ کن بارشوں اور سیلابی ریلوں سے سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوا ہے۔

وزیراعظم نے اپنے گزشتہ روز بلوچستان کے چوتھے دورئے کے دوران بلوچستان کے متاثرین اور صوبے میں ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے 10 ارب روپے دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ ابتدائی طور پر بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت سے فوری طور پر بلوچستان کو 50 ارب روپے دینے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد بلوچستان اسمبلی کے آخری سیشن میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں وفاقی حکومت سے بلوچستان کو صورتحال سے نمٹنے کے لئے 60 ارب روپے کا پیکیج دینے کا مطالبہ کیا گیا تاہم ان مطالبات پر تاحال کوئی پیشرفت نظر نہیں آرہی۔

دوسری جانب یہ امر بھی تکلیف دہ ہے کہ منتخب عوامی نمائندئے چاہے ان کا تعلق حکومت یا اپوزیشن سے ہے مشکل کی اس گھڑی میں عملی میدان میں کم ہی نظر آئے اسی طرح کسی بھی قدرتی آفت کے دوران متاثرین کی فوری امداد و بحالی کے لئے پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی جس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اس کی کارکردگی پر بھی اس بار سوالات اٹھائے جارہے ہیں، ماضی قریب میں جب سیلابی ریلوں اور زلزلوں سے بلوچستان کے مخصوص علاقے متاثر ہوتے رہے ہیں تو حکومت کی جانب سے فوری پیکیج کے اعلان کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئٹہ و اندرون بلوچستان فوری طور پر امدادی کیمپ لگاکر متاثرین کی امداد کے لئے راشن، کپڑوں سمیت دیگر امدادی اشیا جمع کی جاتی تھیں اس بار کی تباہ کن صورت میں یہ روایت بھی دم توڑتی نظر آئی ہے۔ 

تاہم دوسری جانب کور کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور مسلسل بارشوں و سیلابی ریلوں سے متاثرہ علاقوں کے دورے کررہے ہیں جبکہ آرمی چیف بھی بلوچستان کے مختلف متاثرہ علاقوں کے اب تک دورئے کرچکے ہیں اس تمام عرصے میں متاثرہ اضلاع میں ضلعی انتطامیہ بھی متحرک نظر آئی، بلوچستان میں ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی مون سون کی بارشوں کی گزشتہ 70 سال میں مثال نہیں ملتی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید