• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مشکل گھڑی میں سیلاب متاثرین کی دلجوئی کریں

پہلے سیاسی و معاشی بحران نے پریشان کن صورتحال پیدا کی ہوئی تھی اس پر سیلاب کی تباہ کاریوں نے دہری مصیبت پریشانی کھڑی کردی ہے۔ مستقبل کے حوالے سے خوف اور اندیشوں کے سائے اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں جتنا متحد اور منظم ہونا چاہیے تھا اس کے برعکس ہم روز بروز انتشار اور تفریق و تقسیم کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتا ہے قومی مفاد کو نظر انداز کرکے اقتدار کی سیاست میں مصروف سیاسی جماعتوں نے معیشت اور معاشرت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ 

آئی ایم ایف کے معاہدے کے حوالے سے تحریک انصاف نے جو سیاست کی ہے وہ افسوس اور فکرمند ی کا باعث ہے، بڑے عرصے سے اس بات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ ملک کی معیشت کو سیاست سے پاک رکھا جائے لیکن افسوس ہے کہ بعض سیاسی عناصر مخالفت جماعتوں کو نقصان پہنچانے کے لئے سیاست سے کام لے رہے ہیں، تحریک انصاف اس کام میں حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے اس نازک موقع پر معاہدے میں جو رکاوٹیں ڈالنے کے لئے کوشش کی گئی وہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے اس بات پر تمام محب وطن حلقے اضطراب کا شکار ہیں کہ عمران خان آفت کی اس گھڑی میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 

ایک قومی رہنما کے لئے یہ عمل اور رویہ باعث افسوس ہے عمران خان کی پوری توجہ اور کوشش اس حکومت کو گرانے اور الجھانے کی طرف مبذول ہے۔ قومی ادارے ضرور ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہوں گے تحریک انصاف اسلام آباد کے گھیرائو کی بات کرتی ہے اس کواس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اول تو اس طرح کی کوئی کوشش کامیاب ہونے کی کوئی امید نہیں، فرض کریں کہ اگر تحریک انصاف اسلام آباد کا محاصرہ کرکے حکومت گرانے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتی ہے تو معیشت اور عوامی مسائل مہنگائی وغیرہ کی جو آج صورتحال ہے وہ صورتحال آئندہ آنے والی حکومت کوبھی درپیش رہے گی اور کیا پھر اس وقت کی اپوزیشن اسلام آباد کا گھرائو کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوگی؟ 

اس طرح تو ملک ہمیشہ کے لئے غیر یقینی صورتحال اور انتشار اور عدم استحکام کا شکار رہے گا جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ سیلاب کی تباہ کاریاں اس بات کا پیغام دے رہی ہیں کہ ملک کو اعتماد اور سکون کی ضرورت ہے اب وقت آگیا ہے کہ بااثر اور مقتدر ادارے پاکستان کے استحکام کے لئے کھل کر اپنا کردار ادا کریں، تذبذب اور ابہام کی صورتحال سے نکلیں، اگر اس وقت ملک کو مزید زک پہنچ گئی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا پھر کسی کے لئے بھی اس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ملک پہلے ہی معیشت کے لحاظ سے دگرگوں صورتحال میں تھا اب الٹا سیلاب نے اس کو اور بھی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔ 

کہا جا رہا ہے کہ سیلاب سے معیشت کو دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے یہ تو ابتدائی تخمینہ ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت کی مشکلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں اس حکومت پر ترس بھی آتا ہے اور مسلم لیگ کے حامیوں کو غصہ بھی آتا ہے کہ اتنے مشکل ترین حالات میں حکومت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ 

دوسری جانب اتحادی حکومت کا موقف ہے کہ ہم ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لئے آئے تھے ورنہ ملک نہ صرف ڈیفالٹ کا شکار ہو جاتا بلکہ اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا، اب لیکن سیلاب نے ان کی کوششوں کو اپنے ہدف اور ارادوں سے اور دور کردیا ہے، حکومت کی معاشی ٹیم اس نہج پر سوچ رہی تھی کہ آئندہ پانچ چھ ماہ میں معاشی صورتحال میں استحکام آجائے گا اور مہنگائی میں قدرے کمی کا عمل شروع ہو جائے گا لیکن سیاسی عدم استحکام اور سیلاب کی تباہی نے ان کے عزائم کو اپنے اہداف سے دور کردیا ہے اب تو ہر ایک کو پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اس میں طاقتور ادارے بھی شامل ہیں۔ 

عمران خان کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ سیاست نہیں کرتے اور اپنا بیانیہ اور پیغام اپنے ووٹرز، سپورٹرز کو نہیں پہنچاتے تو مقدمات، نااہلی اور گرفتاریاں ان کا تعاقب کر رہی ہیں ان کی ذرا سی گرفت کمزور ہوگی کہ وہ قابو میں آجائیں گے لیکن جس طرح شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر اتحادی حکومت کے رہنما سیلاب زدہ علاقوں میں متحرک ہیں وہ عمران خان کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کر دیں گے ان کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بالآخر محدود کرنا پڑے گا یا پھر حالات اور واقعات ان کو ایسا کرنے پر مجبور کردیں گے کیونکہ ملک اس نازک اور مصیبت کی گھڑی میں عدم استحکام اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ 

عمران خان کے جلسے جلوس موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سیاسی تپش کو کم کرنے کے لئے ستمبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا دی جائے کیونکہ ان انتخابات کے باعث سیاسی جماعتیں سیاسی سرگرمیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب کا جنوبی علاقہ سیلاب کی شدید زد میں ہے لیکن وفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی معاملات اور حالات کی وجہ سے خدشہ ہے کہ امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ یا مشکلات پیش آ رہی ہیں، سیلاب کی نازک صورتحال کے پیش نظر سیاسی رہنماؤں کو سیاست کے بجائے متاثرین کی دلجوئی کرنے کیلئے اکھٹے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی معاملات کو تدبر اور حکمت عملی سے سلجھا رہے ہیں وہ عمران خان کی سیاست میں ساتھ بھی ہیں اور بہت سے معاملات سے دور بھی ہیں۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنے سے انہوں نے خود کو دور ہی رکھا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے شہباز گل کے فوج کے اندر بغاوت کے اکسانے والے بیان کی انہوں نے کھل کر مذمت کی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید