• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ توہین عدالت قوانین پر یقین نہیں رکھتی، صحافی جو کررہے ہیں کیا وہ درست ہے، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں کو ملک بھر میں ہراساں کرنے کیخلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں.

یہ عدالت ( اسلام آباد ہائی کورٹ ) توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی، عدالت نے وہی کرنا ہے جو کرتی آرہی ہے، عدالت تنقید سے کبھی کسی کو نہیں روکے گی مگر تنقید سچ پر مبنی ہو، صحافی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جو وہ کر رہے ہیں کیا وہ درست کر رہے ہے؟2018 سے اب تک جو کچھ ہوتا آ رہا ہے وہ دیکھ لیں ۔

 یہ کورٹ آپ کو کبھی نہیں روکے گی جو کہنا ہے کہتے رہیں، مجھے وہ باتیں قابل احترام 3صحافی بتا رہے ہیں جو مجھے نہیں پتا، بیانیے بنتے ہیں،جتنا کرنا ہے کر لیں،عدالت نے کسی کو اپروچ ہونے کی اجازت دی نہ کسی سے رابطہ رکھا۔

جمعہ کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں صحافیوں کو ملک بھر میں ہراساں کرنے کیخلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں۔ یہ عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی۔

صحافیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے وہ باتیں قابل احترام تین صحافی بتا رہے ہیں، جو خود مجھے بھی نہیں پتا۔ اگر کوئی ایسی چیز ہے بھی تو سامنے آکر مجھے بتا دیں۔ جو کہنا ہے کہتے رہیں، 3سال سے تنقید ہی اس عدالت کی طاقت ہے لیکن کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔جو کچھ کسی نے کہنا ہو کہے، اس عدالت نے آزادی دی ہوئی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جس چیز کا مجھے علم نہیں ہے، اگر ان کو علم ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے مجھے بھی بتا دیں۔یہ عدالت کسی چیز سے گھبرانے والی نہیں ہے ۔آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے۔ میں پھر کہتا ہوں یہ اس عدالت کا احتساب ہے ۔ اس عدالت نے نہ کسی کو اپروچ ہونے کی اجازت دی ہے نہ کسی سے رابطہ رکھا ہے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خوشی اس بات کی ہے کہ ہر کوئی کمپین چلاتا ہے لیکن اس کورٹ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ سچ خود بخود کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ صحافی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جو وہ کر رہے ہیں کیا وہ درست کر رہے ہے؟ ۔

کورٹ ہمیشہ فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے ۔بیانیے بنتے ہیں، جتنا کرنا ہے کر لیں، عدالت نے وہی کرنا ہے جو کرتی آرہی ہے، لیکن اپنے آپ سے پوچھیں ہم اس ریاست کو کس طرف لیکر جارہے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ باقیوں کو چھوڑیں، کیا صحافیوں کو یہ کام کرنا چاہیے ؟ 2018 سے اب تک جو کچھ ہوتا آ رہا ہے وہ دیکھ لیں ۔

 یہ کورٹ آپ کو کبھی نہیں روکے گی جو کہنا ہے کہتے رہیں۔ یہ عدالت توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی۔ اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں۔ فیک نیوز کا واحد حل یہ ہے کہ more speech ۔ آج تک ہم آئین کو پوری طرح بحال نہیں کر سکے۔

اہم خبریں سے مزید