علی حسن ساجد
رمشا ایک چھوٹی بچی تھی، ہنستی کھیلتی رہتی، خوش رہتی،تعلیم حاصل کرتی اور اپنے ماں باپ سے ڈھیروں محبت پاتی، ایک دن اچانک بھاگتی ہوئی اپنی ماں کے پاس آئی ، اپنے کانپتے ہاتھ کانوں پر رکھے ہوئے تھے تاکہ گولیوں کی آوازوں کا شور کان میں داخل نہ ہونے پائے، اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی تو لرز کر رہی گئی اور اپنی ماں سے آ کر چمٹ گئی، رمشا ایک ذہین بچی تھی اور اتنی بھی چھوٹی نہیں تھی کہ، اپنے ارد گرد ہونے والی سرگرمیوں کو سمجھ نہ سکے لیکن گولیوں کی آواز اس نے پہلی بار سنی تھی۔
اس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ،’’ امی آخر یہ آوازیں کس چیز کی ہیں، اپنی لرزتی آواز کے ساتھ بار بار وہ یہ سوال کرتی کہ، امی یہ کیا ہو رہا ہے۔ رمشا کی ماں سمجھ چکی تھی کہ اسے اس بات کا تسلی بخش جواب چاہئے، ماں نے کہا کہ۔’’ بیٹا !گھبرائو نہیں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔
آج ہم جس آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں، جس کھلی فضا میں رہ رہے ہیں اور جس ملک کی خاطر ہزاروں لوگوں نے جانوں کی قربانی دی ہے، اس ملک کی حفاظت پر ہمارے وہ بہادر نوجوان موجود ہیں جو اپنی جانوں پر کھیل کر اس ملک کی حفاظت کرنا جانتے ہیں، دشمن نے ہمیں ایک بار پھر للکارا ہے وہ یہ بھول گیا ہے کہ پاکستانی جاں باز اپنی جانیں تو دے سکتے ہیں لیکن اپنے ملک پر آنچ آنے نہیں دیں گے ، دشمن نے یہ سوچ کر الصبح ہم پر حملہ کیا ہے کہ ہمارے بہادر سپاہی اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے بجائے سو رہے ہوں گے، اسے معلوم نہیں کہ ہماری مسلح افواج کے جاں باز سوتے نہیں ہیں وہ ہر وقت ، ہر سانس اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر صرف کرتے ہیں۔‘‘ یہ سن کررمشا نے فوراً ہی ایک اور سوال کیا کہ،’’ امی کیا میرے پاپا بھی۔‘‘ ’’ ہاں بیٹا آپ کے پاپا بھی فوج میں ہیں اور وہ بھی اس وقت اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر دشمنوں سے مقابلہ کر ر ہے ہیں۔ اُس کی امی نے کہا۔’’ امی انہیں تو گھر پر ہوناچاہئے تھا تاکہ وہ ہماری حفاظت کریں۔‘‘
نہیں بیٹی اگر وہ گھر پر ہوتے تو دشمن کی فوجیں ملک کے اندر داخل ہو کر ہمارے گھروں تک پہنچ جاتیں، ہماری بہادر فوج نے ہی انہیں آج روکا ہوا ہے، ہمارے فضائیہ کے جوان بھی اپنے جنگی جہازوں کے ساتھ اپنے ملک کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں ، سمندری راستے کی حفاظت پاکستان نیوی کے جوان کر رہے ہیں اور انشاء اللہ جو جنگ ہم پر مسلط کی گئی ہے اس میں جیت ہماری ہی ہوگی، تم ذرا سوچو کہ اگر ہماری حفاظت کے لئے ہماری افواج اس وقت مقابلہ نہ کر رہی ہوتی تو ہمارے پیارے وطن پر آنچ آسکتی تھی لیکن انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا اور ہمارا ہر سپاہی آخری سانس تک لڑے گا۔‘‘ ’’ امی ہمیں تو کچھ نہیں ہوگا ۔‘‘’’نہیں بیٹا کیسے کچھ ہوسکتا ہے ، امی نے جواب دیا۔ اور ہاں بیٹا، ہماری افواج کا ہمارے نوجوانوں کا اور اس ملک کے ہر ہر شہری کا یہ عزم ہے کہ وہ اس وطن عزیز کی خاطر جو انہوں نے ایک نظریے کے تحت قائد اعظم کی سربراہی میں حاصل کیا اور مسلمانوں نے اس کے لئے لازوال قربانیاں دیں۔
اس کی حفاظت کے لئے وہ اپنی جان تو قربان کرسکتے ہیں لیکن اس پر آنچ آتے نہیں دیکھ سکتے 65 کی جنگ کے کئی سال بعد ستمبر کا آغاز ہو اتورمشا کی امی نےاُس سے پوچھا، اب تو تم کو پتا ہوگا کہ، 6 ستمبر 1965ء کو دشمن نے ہم پر حملہ کیا تھا اور یہ سوچ کر حملہ کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے جوان الصبح اپنی فرائض سے غافل ہو کر سو رہے ہوں گے کیوں نہ ہم حملہ کرکے انہیں ہمیشہ کے لئے سلا دیں اور ملک پر قبضہ کرلیں، انہوں نے بیک وقت کئی محاذوں سے پاکستان پر حملہ کیا خاص کر لاہور شہر کے راستے ان کی مسلح افواج ہمارے ملک میں داخل ہونا چاہتی تھی لیکن ہمارے بہادر سپاہیوں نے نہ صرف ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ انہیں ایسا کرنے سے بھی روکے رکھا، یہ حملہ ہمارے دشمن بھارت نے ہم پر کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے قوم کی دعائوں سے پاکستان کو اس جنگ میں فتح نصیب کی کیونکہ مسلح افواج کے ساتھ پوری قوم ہی اپنے وطن کی حفاظت کے لئے لڑ رہی تھی جہاں جہاں بھی ضرورت ہوتی وہاں ہمارے شہری پہنچتے اور مسلح افواج کی مدد کرتے، ہمارے شاعرنغمے لکھ رہے تھے، ہمارے گلوکار افواج کے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے یہ نغمے گا رہے تھے، ہمارے موسیقار ان نغموں کو موسیقی سے مزین کر رہے تھے۔
امی نے مزید بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ، اسی طرح ہمارے اسکائوٹس کے بچوں نے بھی جنگ کے دوران بھرپور خدمات انجام دیں ، قومی رضاکار بھی پیش پیش رہے، بیٹا جنگ کے دوران رات کے وقت جب کبھی دشمن حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہےتو شہروں میں بلیک آئوٹ کرا دیا جاتا یعنی تمام روشنیاں گل کردی جاتیں، ہر طرف اندھیرے کا راج ہوتا ہے تاکہ دشمن کو پتہ نہ چلے کہ شہر کہاں ہے اور جنگل کہاں ہے، یہ حکمت عملی بہت کامیاب رہی اور ہمارے تقریباً سارے ہی شہر محفوظ رہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس جنگ میں بھرپور کامیابی سے نوازا، دشمن کو یہ ہمیشہ یاد رہے گا کہ پاکستان ایسا ملک نہیں ہے جس پر آسانی سے حملہ کرکے اسے نقصان پہنچایا جاسکے، امی اس وقت ہم نے ایٹم بم کیوں نہیں چلایا ؟
امی رمشا کا یہ معصوم سا سوال سن کر مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ بیٹا اس زمانے میں ہم ایٹمی طاقت نہیں تھے، ہم نے یہ صلاحیت بہت بعد میں حاصل کی، یہ جنگ تو 1965 ء میں ہوئی اور ہم ایٹمی طاقت 28 مئی 1998ء میں بنے، اب کوئی ملک آسانی کے ساتھ ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ قوت عطا کی، ورنہ دشمن کئی بار ہم پر حملہ آور ہوچکا ہوتا، ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے پاکستان بہت مضبوط ہے،جس پر ہمیں فخر ہے۔ رمشا نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ دشمن کو مزا چکھانے کے لئے میرے ابو کو فوج میں ہی ہوناچاہئے کیونکہ میرے ابو بہت بہادر اور نڈر ہیں وہ اپنے وطن سے بھی بہت پیار کرتے ہیں اور جس طرح وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اسی طرح وہ وطن کی حفاظت کے لئے بھی سوچتے ہیں۔‘‘
جی بیٹا، امی نے مسکراتے ہوئے کہا ، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، رمشا بھاگتے ہوئے دروازے کی طرف گئی اور دروازہ کھول دیا ، ابو فوجی وردی میں ان کے سامنے کھڑے تھے، وہ اپنے ابو سے لپٹ گئی اور ابو کا شکر یہ ادا کرنے لگی کہ ابو آج آپ نہیں ہوتے تو دشمن پتہ نہیں ہمارا کیا حال کرتا، ابو ان کی یہ بات سن کر ساری بات سمجھ گئے اور انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا جب تک ایک فوجی بھی زندہ ہے پاکستان کی کسی بیٹی، کسی بہن اور کسی ماں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، صرف ہم ہی نہیں پوری قوم کے جوان اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور کبھی بھی اپنے پیارے وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ہماری جانیں ، ہماری وفائیں اس وطن عزیز کے لئے ہیں،پاس کھڑی ہوئی ان کی امی بھی یہ ساری باتیں سن رہی تھیں سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور یک آواز ہو کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور ایک بار پھر سب نے مل کر اپنے وطن سے ایفائے عہد کو دہرایا، ابو نے فرط جذبات سے مغلوب ہو کر اپنی معصوم اور پیاری سی بیٹی کو سلوٹ پیش کیا۔