رابعہ خان
چھ سال کا ایک بچہ اَپنی چار سالہ چھوٹی بہن کے ساتھ بازار سے گُزر رہا تھا۔ چلتے چلتے جب اس نے مُڑ کر دیکھا تو اس کی بہن پیچھے رہ گئی تھی،وہ ایک کھلونوں کی دوکان کی کھڑکی سے اندر کسی چیز کو بڑے شوق و انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ لڑ کے نے بہن کے قریب جاکر پوچھا،’’کیا تُمھیں کوئی کھلونہ چاہیئے؟‘‘
بہن نے سر ہلاتے ہوئے ایک کھلونے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بہن کے ساتھ دوکان کے اندر گیا۔ اور ایک ذمہ دار بڑے بھائی کی طرح وہ گُڑیا اُٹھا کر اپنی بہن کے ہاتھ میں تھما دی۔ بہن کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
دوکاندار یہ سارا منظر بڑے غور سے دیکھ رہا تھا کہ اتنا چھوٹا سا بچہ کس قدر محبت اور ذمہ داری سے اَپنی بہن کی خواہش پوری کر رہا ہے۔ وہ لڑکا دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا،انکل یہ گُڑیا کتنےکی ہے؟‘‘ اس نے بہن کو جو گڑیا دی تھی اس کی قیمت پوچھی۔
دوکاندار ایک جہاندیدہ شخص تھا اور زندگی کے اُتار چڑھاؤ دیکھ چکا تھا۔ اس نے بڑے شفقت سے پوچھا، تم اس کی کتنی قیمت دے سکتے ہو؟‘‘
لڑکے نے جیب سے وہ سارے سیپیاں نکالیںجو اس نے ساحل سمندر سے چنی تھیں اور دوکاندار کے سامنے میز پر رکھ دیں۔
دوکاندار ان سیپیوں کو ایسے گننے لگا جیسے پیسے گن رہا ھو، اس نے لڑکے کی سمت نظر اُٹھاکر دیکھا تواُس نے پریشان ہوکر پوچھا،’’کیا کم ہیں انکل..؟‘‘
’’نہیں نہیں یہ تو اس گُڑیاکی قیمت سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر دوکاندار نے چار سیپیاں رکھ لیں اور باقی اس کو واپس لوٹا دیں۔ لڑکے نے سیپیاں اپنے جیب میں ڈالیںاور خوشی خوشی اَپنی بہن کے ساتھ دوکان سے نکل گیا۔
دوکاندار کا ایک کاریگر بڑے غور سے یہ دیکھ رہا تھا۔ دوکاندار کے پاس آکر کہنے لگا،’’ اتنی قیمتی گُڑیاچار سیپیوں کے عوض اس بچے کو کیوں دے دی؟‘‘
دوکاندار نے کہا، ’’یہ ہمارے لیئے سیپیاں ہیں لیکن اس لڑکے کے لیئے بہت قیمتی ہیں، اس عمر میں شائد اسے اَندازہ نہیں کہ پیسؤں کی اہمیت کیا ہے لیکن جب یہ بڑا ہوگا تو اسے بھی ہماری طرح سمجھ آجائے گا۔
اور جب اسے یاد آئے گا کہ کبھی اس نے اَپنی بہن کے لیئے گُڑیا صرف چار سیپیاں دے کر خریدی تھی تو وہ سمجھے گا کہ دنیا ابھی اچھے انسانوں سے بھری پڑی ہے، اس سے اُسے ایک اَچھا سبق ملے گا۔ اور مُمکن ہے یہ واقعہ اسے بھی کسی کے ساتھ کچھ اَچھا کرنے کی ترغیب کا باعث بن جائے۔‘‘