اسلام آباد (جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے ایک دہشت گرد حملہ کے دوران مقابلہ کرنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے والے ایف سی کے 38 اہلکاروں کی بزدلی و نااہلی کی بنیاد پر کی گئی برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ جان بچانی ہے تو کچھ اور کام کر لیں ایف سی میں مت جائیں،چیف جسٹس نے کہا کہ منظم فورس کا ہتھیار ڈالنا معمولی بات نہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جان بچانی ہے تو کچھ اور کام کرلیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز باچا خان پولیس سٹیشن پر دہشگردوں کے حملے کے دوران ہتھیار ڈالنے والے ایف سی اہلکاروں کی برطرفیوں کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریما رکس دیئےکہ ایک منظم فورس کا ہتھیار ڈالنا معمولی بات نہیں ہے ، پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا تو سب اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیئے،سرنڈر (سرجھکانا )ہونے والے محکمہ تعلیم یا کسی اور ادارے کے ملازم ہوتے تو کوئی بات نہ تھی لیکن ایف سی ایک منظم فورس ہے،دوران سماعت اپیل گزاروں کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ایس ایچ او نے ہتھیار ڈالنے کاحکم جاری کیا تھا ورنہ تمام اہلکار لڑنے کے لیے تیار تھے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کسی ایک اہلکار نے بھی گولی کھائی ہوتی تو آج ہم فخر سے کہ سکتے کہ ہماری فورس نے مقابلہ کیا تھااورہم مان لیتے کہ اہلکاروں نے بہادری دکھائی تھی ،انہوں نے ریمارکس د یئےکہ اگر کوئی ادارہ خود ہتھیار ڈالنے والوں کو نہ رکھے تو عدالت اس کے کام میں کیسے مداخلت کر سکتی ہے؟جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ادارے نے دیگر ملازمین کو بحال کردیاہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کتنے ایف سی ملازمین نے ہتھیار ڈالے تھے؟ تو فاضل وکیل نے بتایا کہ مجموعی طور پر 44 اہلکاروں نے ہتھیار ڈالے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ 44ایف سی اہلکار ایک پولیس اسٹیشن کو نہیں بچا سکے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 44 ایف سی اہلکار مل کر تھانے کی حفاظت نہیں کر سکے ہیں،جان بچانی ہے تو کچھ اور کام کر لیں، ایف سی میں مت جائیں،انہوں نے کہا کہ عدالت ایف سی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی،بعد ازاں عدالت نے ایف سی اہلکاروں کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے اپیلیں نمٹادیں۔