• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اداکار محمد علی قدرت نے انہیں ایک گونج دار، پُرکشش آواز سے نوازا تھا

فضل احمد کریم فضل نے اپنی فلم’’چراغ جلتا رہا‘‘ میں جن چہروں کو متعارف کروایا۔ آگے چل کر اُن ہی فن کاروں نے ساری فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ ان میں سے ایک نام اداکار محمد علی کا ہے۔ گورا چٹا، دراز قامت، چال ڈھال، مزاج، بات، طور و اطوار میں انفرادیت لیے محمد علی فلم انڈسٹری کا انمول سرمایہ ثابت ہوئے اور طویل عرصے سے وہ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے فلم بینوں کے حواسوں پر چھائے رہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ خدا نے انہیں ایک گونج دار، پُرکشش آواز سے نوازا تھا۔ ریڈیو پر انہیں زیڈ اے بخاری کی صحبت ملی، جو نہایت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ بخاری مرحوم خود بہت بڑے صداکار تھے۔ 

یقینا اداکار محمد علی نے ان کی صحبت سے بہت کچھ سیکھا۔ فلمی دنیا میں ان کی کام یابی میں آواز کا بہت دخل تھا۔ غالباً ان کی پہلی کام یاب فلم جس نے انہیں صف ِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ’’خاموش رہو‘‘ تھی۔ اس فلم میں ان کا کردار ایک ایسے آدمی کا تھا، جو کسی مجبوری میں طوائفوں کے دھندے میں مڈل مین ہوتا ہے۔ کوٹھے کے غلیظ ماحول میں رہے سہنے کے باوجود اس کا ضمیر مرتا نہیں۔ 

وہ اپنی شدید اندرونی مزاحمت کے باوجود خاموش رہتا ہے اور سب کچھ سہتا رہتا ہے، یہاں تک کہ قتل کا ایک حادثہ اُسے عدالت کے کٹہرے میں پہنچا دیتا ہے، جہاں وہ عدالت کے منصف کے سامنے اپنا سینہ کھول کر رکھ دیتا ہے۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جس میں عدالت اس کے کٹہرے، اور وکلاء کی بحث و جرح کو موضوع بنایا گیا تھا۔ پوری فلم محمد علی ہی کے کردار کے گرد گھومتی ہے۔

ان کی بے بس اور طنز آمیز مسکراہٹ، سب کچھ سہہ جانا اور کوئی احتجاج نہ کرنا، اپنے لبوں کو سیئے رہنا۔ محمد علی، ادائیگی میں چہرے کے تاثرات کے اپنے فن کے معراج پر پہنچ گئے تھے اور جب پیمانہ صبر لبریز ہوتا ہے، تو عدالت کے کٹہرے میں وہ جس طرح اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس نے فلم بینوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ ’’خاموش رہو‘‘ اپنے وقت کی کام یاب فلم تھی۔ محمد علی کے کیریئر میں ہی یہ فلم ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ ایک اور فلم جس کے آخری سین نے بتلایا کہ محمد علی کتنے بڑے اداکار بننے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ وہ شباب کیرانوی کی فلم’’ انسان اور آدمی‘‘تھی۔ 

اس میں وہ بھلے مانس کے رول میں سامنے آئے۔ حادثات نے ان کی محبت کو کوٹھے تک پہنچا دیا۔ اور پھر قتل کے ایک مقدمے میں پھنس کر ان کی محبت یعنی اداکارہ زیبا عدالت تک پہنچ جاتی ہے۔ محمد علی اس مقدمے میں وکیل ہوتے ہیں، وہ مقدمہ جیت جاتے ہیں، لیکن کام یابی کے باوجود ان کے دامن میں کچھ نہیں آتا۔ فلم کے آخری سین میں وہ راہ داری سے ایک ناکام اور ہارے ہوئے جواری کی طرح آتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سین میں ان کی اداکاری اپنی بلندیوں پر نظر آتی ہے۔ 

یہ فلم بھی باکس آفس پرکام یاب ہوئی۔ اداکار محمد علی وراسٹائل ایکٹر تھے، ہر قسم کے کردار کو نبھانا جانتے تھے۔ چاہے وہ المیہ سین ہو یا کامیڈی، چاہے کسی جنگجو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہو یا رومانی رول میں آتا ہو۔ انہوں نے ہر قسم کے کردار ادا کیے اور خُوب نبھائے۔ متنوع کردار ادا کرنے کی وجہ سے وہ ہر طبقہ ٔخیال کے فلم بینوں میں پسند کیے جاتے تھے۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک شریف النفس اور درد مندانہ احساسات کے تحت ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے انسان تھے۔ 

وہ فلم انڈسٹری میں ’’بھیا‘‘ کہلاتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کو ’’چندا‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا، ان کی عادت تھی۔ محمد علی نے بے شمار فلموں میں کام کیا، بلکہ علی زیب پروڈکشنز کے نام سے انہوں نے ایک پروڈکشن کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی کے تحت ایک فلم ’’آگ‘‘ بھی ریلیز کی، جس کے مرکزی کردار محمد علی اور زیبا ہی تھے۔ یہ فلم بھی کام یاب ہوئی۔ اس میں محمد علی کی اداکاری بہت پسند کی گئی۔

محمد علی اپنے طرز کے واحد اداکار تھے۔ ان کے فن پر ہندوستان و پاکستان کے کسی بھی دوسرے اداکار کی چھاپ نہیں تھی۔ اداکاری میں انہوں نے ایسا راستہ خود نکالا تھا، لیکن کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد علی اس گمان میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ فلموں اپنی آواز کو جس بلندآہنگی سے استعمال کرتے ہیں، فلم بین طبقہ اس انداز کو پسند کرتا ہے، چناں چہ فلم کے ہدایت کاروں کی ہدایت پراپنی آواز کو اس طرح استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی آواز پھٹ گئی اور ناخوش گوار ہوتی چلی گئی۔ اس کے باوجود وہ باز نہ آئے اور فلموں میں چیخنا، دھاڑنا نہ چھوڑا۔ 

غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی جو فلمیں ابتداء میں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں، وہ وہی تھیں، جس میں انہوں نے لائوڈ آواز کو استعمال کیا تھا۔ مثلاً ’’صاعقہ‘‘ جس میں انہوں نے ایک ظالم و جابر دادی حضور کے سامنے زوردار آواز میں مکالمے ادا کیے تھے اور’’صاعقہ‘‘ کا یہ منظر بھی فلم بینوں کو بھا گیا تھا۔ ان کی آواز ناخوش گوار ہوگئی تھی، جسم بے ڈول ہو گیا، توند نِکل آئی ،لیکن انہوں نے رومانی ہیرو کا رول ادا کرنا نہ چھوڑا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اداکار محمد علی کا آغاز اور درمیان بہت اچھا تھا، لیکن اختتام اور انجام مایوس کن رہا۔ 

وہ فطری طور پر اداکار تھے اور ان میں بڑے اداکار بننے کے بہت امکانات چھپے تھے، لیکن مقبولیت کی لت نے آخر میں ان کو ناسمجھ اداکار بنا دیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے اداکار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ محمد علی مرحوم، اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ہماری فلمی صنعت کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی، انہیں ان کے کام یاب اداکار اور ایک نہایت بہترین درد مند دل رکھنے والے انسان کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد علی کے زوال کے ساتھ ہی ہماری فلم انڈسٹری بھی زوال کا شکار ہوتی چلی گئی اوراب یہ فلم انڈسٹری اپنے احیاء کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، دیکھیں اسے پھرکوئی محمد علی جیسا فن کار ملتا ہے یا نہیں۔!!

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید