مزاح لکھنا کوئی آسان کام نہیں، یُوں سمجھ لیجیے کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، کسی بھی سنجیدہ مسئلے کو لطیف پیرائے میں پیش کر کے اس کا حل تلاش کرنا ہر ایک لکھنے والے کے بس کی بات نہیں،یہ ہنر تو صرف انہیں ہی آتا ہے، جو زندگی کی تلخ و شیریں راہوں سے نہ صرف آشنا ہوتے ہیں، بلکہ اس کی تہہ در تہہ پوشیدہ حقیقتوں کو آشکار کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔
ہماری شوبزنس انڈسٹری محض کھیل تماشے سے عبارت نہیں، اس میں انور مقصود جیسے جرات مند، بہادر اور سچ لکھنے والے اور بولنے والے بھی موجود ہیں، جو ہمارے ارد گرد پھیلی سیاسی اور معاشرتی بیماریوں کی تشخیص کر کے ان کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ انور مقصود نے اپنے قلم کو صرف دولت اور شہرت کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھا، بلکہ اپنی کاٹ دار تحریروں اور تیکھے جملوں سے معاشرے میں برائی اور اسے پھیلانے والے عناصر کو بے نقاب کیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی عادتیں بدل لیں، بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ اس کوشش میں خود انور مقصود کو اپنی روش تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور کئی مرتبہ ان کے ٹیلی ویژن پر چلتے ہوئے پروگراموں کو بندش کی زنجیر پہنائی گئی، تو انہوں نے کُھل کر لکھنے کے لیے تھیٹر کا راستہ اختیار کیا، یہاں انہیں غیر معمولی شہرت اور کام یابی حاصل ہوئی، انہوں نے اپنے لکھے ہوئے ٹیلی ویژن ڈراموں کو تھیٹر پر پیش کیا تو ہر طرف دُھوم مچ گئی۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اُن کے لکھے ہوئے ڈراموں نے یکساں کام یابی حاصل کی، ایسا پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ کوئی تھیٹر کھیل پاکستان کے تین بڑے شہروں میں بزنس کے اعتبار سے بھی غیر معمولی رہا ہو۔ انہوں نے آنگن ٹیڑھا سے تھیٹر کی دُنیا میں اپنا سفر شروع کیا اور پھر ہاف پلیٹ ،پونے چودہ اگست، سوا 14اگست ،انور مقصود کا دھرنا، سیاچن، ناچ نہ جانے اور اب ’’ساڑھے 14اگست ‘‘شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہا ہے۔
انہوں نے ’’ساڑھے 14اگست ‘‘ میں پاکستان کے 75 برسوں کی کہانی ڈھائی گھنٹے میں سمیٹ دی، جب ساری دُنیا کورونا کے خوف میں مبتلا تھی، تو انور مقصود بھی کورونا کا شکار ہوئے، لیکن اس عالمی وَبا نے ان کے قلم کو سچ لکھنے سے نہیں روکا، وہ بڑی بہادری سے لاک ڈائون کے دوران نیا تھیٹر ’’ساڑھے چودہ اگست ‘‘ لکھتے رہے، اور پھر داور محمود کی ہدایت کاری میں اسے پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر پیش کیا، جو کئی ہفتوں سے کام یابی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، ساڑھے چودہ اگست کی کام یابی کے سفر میں انہیں جنگ اور جیو کا تعاون بھی حاصل ہے، جنگ اور جیو مذکورہ کھیل کے آفیشل میڈیا پارٹنرز ہیں۔
انور مقصود نے تھیٹر کے لیے جو لکھا ، وہ شاہ کار ہو گیا، انہوں نے اپنے ڈراموں میں مقبول اور شہرت یافتہ فن کاروں کے بہ جائے نئے با صلاحیت آرٹسٹوں کو اپنا فن پیش کرنے کا موقع دیا، یہی وجہ ہے کہ انور صاحب کے تھیٹر کھیلوں سے کئی فن کار متعارف ہوئے۔ ان میں اداکار یاسر حسین اور اداکارہ حریم فاروق و دیگر شامل ہیں۔ حریم فاروق اور یاسر حسین نے بعد ازاں ڈراموں اور فلموں میں کام کرکے اپنی پہچان بنائی۔ حریم فاروق کو ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘ میں جہاں آرا بیگم اور یاسر حسین کو ’’اکبر ‘‘ کے کردار سے پہچان ملی۔ ٹیلی ویژن پر حریم فاروق سے قبل جہاں آراء کا دل چسپ کردار بشریٰ انصاری نے کیا تھا، جب کہ یاسر حُسین کا کردار سلیم ناصر نے عمدہ انداز میں نبھایا تھا۔
اب ہم بات کرتے ہیں ’’ساڑھے چودہ اگست‘‘ کی خاص پہلوئوں کی۔ ایک دہائی کے بعد انور مقصود نے اگست کی سیریز کا آخری حصہ لکھا۔ ڈرامے کی کہانی دو مرکزی کرداروں جناح اور گاندھی کے گرد گُھومتی ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کا کردار داور محمود نے خود کیا، جب کہ گاندھی کے کردار کے لیے تنویر گِل کا انتخاب کیا گیا، دونوں نے جَم کر پرفارمینس دی، البتہ گاندھی کے کردار میں تنویر گل نےڈرامے کے سارے کرداروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
واضح رہے کہ ابتدائی دِنوں میں قائد اعظم کا کردار عمر قاضی نے بھی کیا تھا بعد ازاں یہ مرکزی کردار خود داور محمود نے پرفارم کیا۔ تھیٹر کی کہانی آگے بڑھتی ہے اور پاکستان اور ہندوستان کےدرمیان تقسیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے گرد گھومتی ہے، جناح اور گاندھی لوگوں کا ردعمل دیکھنے کے لیے کشمیر، لاہور، دہلی اور لندن کا دورہ کرتے ہیں اور تقسیم کے فیصلے کو دُرست یا غلط ہونے کے الزامات کے خلاف ایک کیس کا دفاع کرتے ہیں، ڈرامے میں دکھایا کہ ماضی میں جناح اور گاندھی تقسیم کے حامی نہیں تھے، وہ صرف برطانوی راج سے چھٹکارا چاہتے تھے، دونوں رہنمائوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم حکومت پر اتفاق کیا تھا، لیکن نہرو نے اس سے اتفاق نہیں کیا، جس کے نتیجے میں برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
’’ساڑھے چودہ اگست ‘‘ میں کئی درجن فن کار حصہ لے رہے ہیں، ہدایت کار داور محمود نے تقسیم ہند کے موقع پر ہونے والی ظلم کی داستان کا عکس تھیٹر پر خُوب صورتی سے پیش کیا ،جس میں کم و بیش سو کے قریب فن کاروں نے حصہ لیا، فن کاروں میں زیادہ تر نئے با صلاحیت فن کار شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کے صاحب زادے جہاں زیب علی شاہ نے شان دار انداز میں اپنا ڈیبیو پیش کیا۔ سینئر اداکار ساجد حسن اور نذر حسین نے بھی اپنے کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھرے۔ دیگر فن کاروں میں طیب فاروقی،سلویٰ سہیل، حمزہ طارق وغیرہ شامل تھے۔
ڈرامے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انور مقصود نے بتایا کہ 2011 میں ہم نے پونے 14اگست پیش کیا،لوگوں نے کہا کہ 14اگست پُوری کیوں نہیں، میں نے کہا، جس دن 14اگست ہوئی، تب اعلان کر دیں گے۔ اس کے تین سال بعد ہم نے سَوا 14اگست کھیل پیش کیا اور اب اس سلسلے کی آخری کڑی ’’ساڑھے 14اگست‘‘ ہے۔
میں اس وقت 82برس کا ہو گیا ہُوں ،اگر زندہ رہا توایک ڈراما ’’چودہ اگست‘‘ بھی لکھوں گا، جب پاکستان بنا ، تو میں7برس کا تھا،پاکستان کو آزاد ہوئے 75برس بیت گئے، لیکن ہمیں آزادی نہیں ملی۔ ہم صرف14اگست کو جشن مناتے ہیں اور پھر سارا سال دکھ ،تکلیف اور پریشانیوں میں گزارتے ہیں۔ آدھا ملک 70کی دہائی میں چلا گیا اور جو باقی رہ گیا تھا، وہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ڈوب رہا ہے، دراصل ہم نے آزادی کی قدر نہیں کی۔ اس وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ ہم نے ساڑھے چودہ اگست کے کچھ شوز سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی مختص کیے ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم سب ایک ہیں۔‘‘
جنگ اور جیو کے تعاون سے پیش کیا جانے والا سپر ہٹ ڈراما ’’ساڑھے چودہ اگست ‘‘ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں روزانہ کام یابی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈرامے میں انور مقصود نے سیاسی پارٹیوں کو اپنے شگفتہ انداز میں نوکیلے جملوں کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی ،ن لیگ، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور ملک ریاض پر طنز و مزاح کے تیر چلائے۔ ڈرامے میں زیادہ تنقید عمران خان اور پی ٹی آئی پر کی گئی، گاندھی کے کردار کے بعد الطاف حسین کا روپ اختیار کرنے والے فن کارکو بھی بے پناہ داد ملی، اداکار نذر حسین نےڈرامے میں تین چار کردار نبھائے۔
ان کے کام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، انہوں نے ساری زندگی تھیٹرکے نام کردی، ایسے فن کاروں کی ہمیں قدر کرنا ہو گی۔ ڈرامے میں گاندھی کا کردار نبھانے والے تنویر گل نے بتایا کہ موہن داس کرم چند گاندھی کا کردار نبھانا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے مجھے بزرگوں کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑا۔ گاندھی کی باڈی لینگویج کاپی کرنے کی کوشش کی۔ان کی پُرانی وڈیوز دیکھیں، ان کی گفتگو کرنے کے انداز کا دل چسپی کے ساتھ مطالعہ کیا۔
اس کردار کو کام یاب بنانے کے لیے سر کے بال اتروائے، گنجا ہو گیا ،مجھے کہا گیا تھا کہ آپ ’’گیٹ اپ ‘‘ کرلیں، لیکن میں نے اسے حقیقی گاندھی سے ملانے کی خاطر میک اپ کے بہ جائے خود پر کام کرنے کو ترجیح دی۔ جب سے اس کھیل کو پیش کرنے کی تیاریاں شروع ہوئیں ،تب سے میں بغیر ہیلمٹ کے بائیک پر سفر کر رہا ہوں، تاکہ میرے جسم کا رنگ گاندھی سے ملتا جُلتا لگے۔میں نے اس سے قبل انور مقصود کے لکھے ہوئے ڈرامے ناچ نہ جانے اور مجھے کیوں نکالا میں بھی کام کر چکا ہوں، میرے کردار کو پسند کرنے والوں کا میں شکر گزار ہوں۔‘‘
داور محمود اور انور مقصود کو ’’ ساڑھے 14اگست‘‘ میں آئٹم سونگ میں شامل کرنے پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں انور مقصود نے اپنے مداحوں سے معذرت کرتے ہوئے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈرامے میں برصغیر کے حالات و واقعات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ہم نے یہ بتایا ہے کہ بھارتی فلموں میں شامل آئٹم سونگ پر کروڑوں روپے لگا دیے جاتے ہیں، جب کہ ممبئی میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر بھوکے سوتے ہیں۔ آئٹم سونگ ڈرامے کی ضرورت تھا۔‘‘ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کھیل کی ہائی لائٹ بھی وہ آئٹم سونگ ہو رہا ہے، جس میں صوفیہ نامی فن کارہ درجنوں ساتھیوں کے ساتھ رقص پیش کر رہی ہیں۔
آئٹم سونگ خصوصی طور پر تیار کروایا گیا ہے، جس کی موسیقی شیراز اُپل نے دی، جنہیں لاہور سے خصوصی طور پر کراچی بھی بلایا گیا تھا۔’’لائیو آئٹم سونگ‘‘ میں روزانہ پرفارمنس دینا کوئی آسان کام نہیں، انور مقصود کا کہنا ہے کہ ’’اس آئٹم سونگ پر تنقیدکرنے والے ہی سب سے زیادہ اسے پسند کر رہے ہیں۔‘‘مختصر یہ کہ دارو محمود اور انور مقصود، ایک دوسرے کے لیے خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں، داور محمود نے انور مقصود کے بغیر ڈراما کرنے کی کوشش کی، مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔’’ساڑھے14 اگست‘‘ میں سے انور مقصود کا نام نِکال دیں، تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔ اس کھیل سے تھیٹر کو نئی زندگی ملی ہے۔ اور ثابت ہوا کہ اسکرپٹ جان دار ہوتو کھیل کو کام یابی ضرور ملتی ہے۔