آزادکشمیر کے سیاسی حالات کا اگر سرسری جائزہ لیں تو مسلم لیگ ن آزاد کشمیر اور پاکستان پیلزپارٹی آزادکشمیر عمران خان اور پی ٹی آئی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ لیکن اسے حالات کا ستم کہیں کہ آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود کوئی قابل ذکر دفاع کرنے والا موجود نہیں۔ پی ٹی آئی آزاد کشمیر اختلافات، گروپنگ باالخصوص اسپیکر اور وزیراعظم کے درمیان تنائو کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن میں نئ تنظیم سازی کے بعد موجودہ صدر اور بانی صدر کے حامیوں کے مابین بھی کہیں ،کہیں چنگاریاں سلگتی محسوس ہوتی ہیں۔
جبکہ آزادکشمیر کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ppp آزاد کشمیر کے بارے میں کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کیلئے وزارت عظمی پر ابھی تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکنے کے باعث حکومت کو مہلت ملی ہوئی ہے۔جبکہ ایک حلقے کی رائے ہے کہ سردار ابراہیم خان،کے ایچ خورشید، سردار عبدالقیوم خان اور ممتاز راٹھور ایسی قدآوور شخصیات کی رحلت کے بعد ازادکشمیر اسمبلی، سیاسی عدم توازن کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا جاندار کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔جبکہ اس رائے سے اختلاف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں 04 وزراء اعظم موجود ہیں ،لیکن وزیراعظم آزادکشمیر کے آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف سے بیک ڈور مظبوط روبط تحریک عدم اعتماد میں حائل ہیں۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق حکومت اور ہاور پالیٹکس کے تقاضے اپنی جگہ پر لیکن ہر آنے والی حکومت سیاسی و نظریاتی رقابت سابق حکومتوں کے کئ اچھے منصوبوں کو بھی کو نظر اناز کر دیتی ہے،اور اس ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔ وزیراعظم وقت چوہدری عبدالمجید کے دور حکومت میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) شیر افگن اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) چوہدری اکرام الحق کی باہمی کوششوں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کشمیری عوام سے خصوصی محبت کے باعث آزاد کشمیر کیلئے پہلے ملٹری کالج کی منظوری ہوئی۔ جاتلاں (ضلع میرپور) میں ملٹری کالج کیلئے زمینی سروے بھی کیا گیا۔ لیکن PPP، PMLN اور اب PTIمسلسل 3حکومتوں کی عدم دلچسپی اور عدم تعاون کی وجہ سے ملٹری کالج کا معاملہ التواء کا شکار چلا آرہا ہے۔ ملٹری کالج ایسے قومی منصوبوں پر ہرآنیوالی حکومت کو اسے آگے بڑھانا چاہیے۔
محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے بے نتیجہ سیاسی اعلانات سے قومی مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان سے توقع کرتے ہیں کہ باغ میں ملٹری کالج کی تکمیل کے علاوہ میرپور میں پہلے سے منظور شدہ ملٹری کالج کیلئے زمین کی فراہمی اور دیگر لوازمات کو پورا کیا جائیگا تاکہ آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو تعلیم و تربیت اور روزگار کے بہتر مواقع میسر آسکیں۔
چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کے ماموں و ریاست جموں و کشمیر کی عہد ساز شخصیت جسٹس (ر) سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس راجہ افراسیاب خان کی وفات سے آزاد کشمیر کی فضا سوگوار ہوگئی۔1935 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مردم خیز خطہ راجل تحصیل نوشہرہ میں راجہ علی اکبر خان چب کے گھر پیدا ہونیوالے راجہ افراسیاب خان نے بحیثیت سیاستدان، وکیل اور جج تینوں شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
آپ ”پاک کشمیری عوامی کانفرنس“ کے بانی صدر تھے۔ اپنی جماعت کو پاکستان اور آزاد کشمیر بھر میں فعال کیا۔ مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کی آبادکاری اور بحالی کیلئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ آزاد کشمیر میں 1970 میں ہونیوالے صدارت انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ مسئلہ کشمیر پر عبور کے باعث قومی کشمیر کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ پھر 1981میں پنجاب بار کونسل کے وائس چیرمین اور 1986میں لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے جبکہ 1987 میں جج لاہور ہائی کورٹ اور 1997میں جج سپریم کورٹ آف پاکستان کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے۔ 14جنوری 2000ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔
ان کی رحلت پر قائمقام چیف جسٹس آزاد کشمیر خواجہ محمد نسیم، جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان، ایڈہاک جج سپریم کورٹ جسٹس محمد یونس طاہر اور چیف جسٹس ہائی کورٹ صداقت حسین راجہ نے تعزیتی پیغام میں مرحوم کی عدالتی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا۔ اس سلسلہ میں ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن سدھنوتی میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے مرحوم کے جونئیر جسٹس (ر) سپریم کورٹ سردار عبدالحمید خان، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چوہدری محمد فیاض، سینئر سول جج پلندری راجہ سنور خان کمالی، صدر بار سردار آصف سعید، جنرل سیکرٹری راجہ محبوب، ممبر بار کونسل سردار حبیب ایڈووکیٹ سمیت دیگر مقررین نے انکی لازوال خدمات پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں ان کے جونئیرز کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ آخر میں انکی مغفرت اور بلندی درجات کیلئے دعا کی گئی۔
یوم دفاع اور یوم فضائیہ، پاکستان کی طرح آزا دکشمیر بھر میں بھی قومی و ملی جذبے کیساتھ منایا گیا۔ مختلف تقاریب سے مقررین نے 1965ء کی جنگ کے شہداء اورمسلح افواج پاکستان کو شاندار الفاظ میں ٹریبوٹ پیش کرتے ہوئے مسلح افواج پاکستان سے بھرپور یکجہتی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ 1965میں جس قومی جذبہ کیساتھ بہادر پاکستانی افواج اور عوام نے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ دوسری طرف آزاد کشمیر کی عوام حکومت سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ حکومت کب عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرے گی، لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو سبز باغ دکھائے تھے حکومت کا فرض ہے کہ عوامی سہولیات کیلئے عملی اقدامات کا بھی مظاہرہ کیا جائے۔