خیبر پختونخوامیں پاکستان تحریک انصاف کو داخلی بحران کا سامنا ہے اور اس کے دو درجن کے لگ بھگ ارکان صوبائی اسمبلی کے حوالے سے خبریں سامنے آرہی ہیں کہ وہ دوسری جماعتوں میں جانے کیلئے پر تول رہے ہیں، اس سلسلے میں آغاز تحریک انصاف کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر سلطان محمد خان کی جانب سے کیا جا چکا ہے جنہوں نے گزشتہ ہفتے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے جرگہ کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اے این پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک اور ایم پی اے فہیم خان کی جانب سے بھی پارٹی چھوڑنے کی اطلاعات ہیں، اسی طرح بعض صوبائی وزرا اور پارٹی کے کچھ ارکان کو ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے مستقبل میں ٹکٹ نہ دینے کے تناظر میں یہ اطلاعات زیر گردش ہیں کہ وہ بھی نئے سیاسی ٹھکانے ڈھونڈ رہے ہیں، اس مرحلہ پر اگر تحریک انصاف کے یہ 24،25 ایم پی ایز بیک وقت بھی مستعفی ہوکر دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیارکرتے ہیں تو بھی صوبائی حکومت کیلئے کسی قسم کے خطرے کے امکانات نہیں البتہ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کا یہ اندرونی انتشار مستقبل میں پی ٹی آئی کیلئے سیاسی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے اور پارٹی قیادت کو ابھی سے کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرکے کارکنوں کی بے چینی کو دور کرنا ہوگا۔
دوسری جانب ان ہی کالموں میں پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود اتحادی جماعتوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا کم نہیں ہوسکی ہے جس کا واضح ثبوت خیبر پختونخوا کے مستقل گورنر کی عدم تقرری ہے، خیبر پختونخوا گزشتہ ساڑھے پانچ مہینوں سے مستقل گورنر سے محروم چلا آرہا ہے جو پی ڈی ایم جماعتوں کی بہت بڑی ناکامی ہے اور جس کا تمام تر فائدہ تحریک انصاف کو ہورہا ہے، ادھر خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ اضلاع میں ریلیف آپریشن جاری ہے ، صوبائی حکومت کی جانب سے صوبہ کے سیلاب زدہ علاقوں میں نقصانات کے حوالے سے جو ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق صوبہ میں 105ارب سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں مزید اضافہ کا امکان ہے ،300افراد جاں بحق ، 350 زخمی اور 90 ہزار مکانات تباہ ہوئے ہیں، جاں بحق ہونے والوں میں 142مرد،41خواتین اور110بچے شامل ہیں۔
اسی طرح 21ہزار مویشی، ڈیڑھ ہزار کلو میٹر سڑکیں اور107پل سیلابی ریلے میں بہہ چکے ہیں ،خیبر پختونخوا میں ہولناک سیلاب اور بڑے پیمانے پر اس کی تباہ کاریوں کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین اب فاصلے کچھ کم ہوجائیں گے اور دونوں حکومتیں مل کر مصیبت زدہ سیلاب زدگان کیلئے کام کریں گی مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے بلکہ مسلسل الزام تراشیوں کی وجہ سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین موجود خلیج میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور سیلاب زدگان کیلئے تاحال مشترکہ طور پر کوئی امدادی کام نہیں ہوسکے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب سے ہونے والے اربوں روپے کے نقصانا ت کو پورا کرنا اکیلے صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ کام دونوں حکومتیں ملکر ہی کرسکتی ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومت مرکز کیساتھ اپنے تعلقات بہتر کرے جس کے فی الوقت کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔