وفاق اور صوبوں میں متحارب سیاسی جماعتوں کی قائم حکومتوں درمیان شدید سیاسی محاذ آرائی ، بد ترین سیلاب کی کی تباہ کاریوں، پٹرولیم کی قیمتوں اور بجلی کی بلوں کئی سو گنا اضافے سے مہنگائی کے طوفان نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اس ساتھ معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے قومی سلامتی کو خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت قائم ہونے سے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت اسلام آباد تک محدود ہونے سے وزیر اعظم شہباز شریف تمام تر کاوشوں کے باوجود وہ کارکردگی نہیں دیکھا پا رہے جو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کاکردگی دیکھا کر اپنا لوہا منواتے رہے اس کے برعکس وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے ڈیڑھ ماہ کے دوران ہی کم و بیش وہ کئی اہداف حاصل کرلیے ہیں جو اُن کے اتحادی عمران خان کی خواہش اور چودھری پرویز الٰہی کی اپنی ترجیح تھے۔
انہوں نے اقتدار ملنے کے فوری بعد نہ صرف وزرا کی محدود تعداد کے ساتھ یہ تمام اہداف حاصل کیے ہیں بلکہ اپنی پسند کے افسران کے تقرر کی بجائے اُنہی افسران کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے کام لے رہے ہیں ،جو ان کی وزارت اعلیٰ سے قبل صوبے میں تعینات تھے۔ چودھری پرویز الٰہی نے بطور وزیراعلیٰ صوبے میں احساس پروگرام، صحت انصاف کارڈ اور دیگر فلاحی پروگرام فی الفور شروع کرکے نہ صرف عمران خان کی خواہش پوری کی ہے بلکہ ابتک کم و بیش تمام شعبہ ہائے زندگی کو اپنے کام سے مطمئن کررہے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی نے بلاتاخیرفلاح عامہ کے پروگراموں کو تیزی سے آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا چودھری پرویزالٰہی اپنی بیوروکریسی کی اپنی فیلڈنگ سیٹ کریں گے لیکن مجموعی طور پر وہی بیوروکریسی اُن کے ساتھ کام کررہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا شروع سے یہی انداز رہا ہے کہ وہ افسران سے سختی سے پیش آنے کی بجائے اپنے مخصوص پنجابی انداز میں بات کرتے ہیں اور انہیں ان کے منصب سے کبھی کم عزت نہیں دیتے افسران کوکام دیتے ہیں تو ساتھ ہی اُن سے وابستہ اپنی توقعات کا اظہار بھی کردیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ افسران نے کبھی اُن کے ساتھ ایسا رویہ روا نہیں رکھا جیسا سابقہ حکومتوں کے ادوار میں وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے ساتھ ہوتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی ٹیم میں شامل پاکستان تحریک انصاف کے وزرا چودھری پرویز الٰہی سے نہ صرف مطمئن نظر آتے ہیں بلکہ ویسا تنائو بھی نظر نہیں آتا جیسا وہ پہلے ظاہرکرتے تھے۔ مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی سے قبل عمران خان کو کسی بھی طریقے سے نااہل قرار دینے اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت ختم کرکے دوبارہ اپنی حکومت قائم کرنے کا پی ڈی ایم کا منصوبہ حقیقت سے کوسوں دور نظر آرہا ہے کیونکہ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات کو مزید بڑھاوا دینے کی نہ صرف اُن کی ہر کوشش رد ہوتی نظر آرہی ہے بلکہ چودھری پرویز الٰہی موجودہ حالات میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کے درمیان پل کا بھی کردار ادا کررہے ہیں اور چودھری پرویز الٰہی بہرصورت دونوں کو قریب لانے میں کامیاب بھی نظرآرہے ہیں کیونکہ وہ عمران خان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نشانہ بنانا ہی ملک و قوم اور اُن کی سیاست کے لیے بہترین فیصلہ ہوگا۔ چودھری پرویز الٰہی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کی وجہ سے پی ڈی ایم کی قیادت بھی اپنے بیانات میں ایک بار پھر عمران خان کو’’لاڈلہ‘‘ اور ’’پیارا‘‘ پکارنے لگی ہے اور عمران خان بھی اب اسٹیبلشمنٹ سے متعلق مثبت کلمات ادا کررہے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی کے بار بار عمران خان سے رابطوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب عدلیہ کے متعلق بھی ایک پیج پر ہیں۔ دوسری طرف میاں نوازشریف بھی وزیراعظم شہبازشریف سے یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی اُن کی ناک کے نیچے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان فاصلے کم کررہے ہیں مگر وہ کچھ نہیں کرپارہے ، چودھری پرویز الٰہی ایک طرف پنجاب میں پی ڈی ایم کا سیاسی طریقے سے صفایا انتہائی سیاسی مہارت کے ساتھ کررہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کا بھی اعتماد پوری طرح حاصل کرچکے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ عمران خان کے کہنے پر فوری طور پنجاب اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔
اُن تمام فیصلوں پر فوری عملدرآمد کی بنیادی وجہ چوہدری مونس الٰہی ہے کہ پنجاب میں ہر منصوبہ برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ، چودھری پرویز الٰہی کے قریبی ساجد احمد بھٹی اور محمد خان بھٹی بھی چودھری پرویز الٰہی اور چودھری مونس الٰہی کے معاونین کے طور پر دن رات مختلف منصوبوں اور معاملات کو حل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ چودھری مونس الٰہی روز رات گئے تک وزیراعلیٰ ہاؤس میں اراکین اسمبلی، بیوروکریٹس اور سیاسی شخصیات کے ساتھ انتظامی اور سیاسی امور پر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور بلامبالغہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں مستقبل کے ’’وزیراعلیٰ پنجاب ‘‘کے طور پر تیار کیا جارہا ہے اور اپنی سیاسی بصیرت اورفہم و فراست کی وجہ سے وہ اب وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے ہی فرائض انجام دے رہے ہیں اس وقت وہ پنجاب کی سب سے طاقتور حکومتی شخصیت بن چکے ہیں۔
اسی طرح چئیرمن تحریک انصاف عمران خان کا میاں اسلم اقبال کو پنجاب کاسینئر وزیر بنانا بڑا احسن اقدام ہے اس سے نہ صرف پی ٹی آئی مضبوط اور فعال نظر آئے گی بلکہ پنجاب کی سیاست میں گہرے اثرات مرتب ہونگے سینئیر وزیر کا عہدہ سنبھالتے ہی میاں اسلم اقبال نے 90شاہراہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کو عوامی دفتر کی شکل دی ہے جہاں دن بھر پی ٹی آئی اور قاف لیگ ہی نہیں بلکہ دوسروں جماعتوں کے سرکردہ سیاسی افراد بھی مسائل کے حل کے لیے دن بھر موجود نظر آتے ہیں اور انہوں نے اپنی کارکردگی اور سیاسی بصیرت سے ثابت کیا ہے کہ انہیں سنیئر منسٹر بنانے کا فیصلہ درست اور دونوں پارٹیوں کے مفاد میں ہے۔
میاں اسلم اقبال کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کے صرف اپنے حلقے کے عوام سے ہی نہیں بلکہ شہرِ لاہور کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ گہرے اور اچھے تعلقات ہیں یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین ہمیشہ ان کے مدمقابل انتخاب میں حصہ لینے سے گریزاں ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے ثابت کیا ہے کہ وہ عمران خان کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کے برعکس ’’وسیم اکرم ڈبل پلس‘‘ ثابت ہورہے ہیں اور ان کو اگر شروع میں ہی یہ منصب دے دیاجاتا تو آج صوبے کے حالات یکسر مختلف ہوتے۔