وزیراعظم شہباز شریف جو کم وبیش ایک ماہ سے ملک میں آنے والے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث حکومتی اور امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے انتہائی مصروف رہے اب ان کی غیر ملکی سرگرمیاں شروع ہو رہی ہیں جن کا آغاز پندرہ سے 16 ستمبر تک ازبکستان کے تاریخی مقام ثمرقند میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت سے ہو رہا ہے انہیں اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت ازبکستان کے صدر شوکت مرزیونیوف نے دی ہے۔ علاقائی اور عالمی اہمیت کے مسائل کے حوالے سے اس اجلاس میں روسی اور چین کے صدور کے علاوہ بھارت کے وزیراعظم بھی شرکت کر رہے ہیں اس اجلاس میں رکن ملک کی حیثیت سے پاکستان کی شرکت انتہائی ناگزیر اور اہم تھی۔
کانفرنس میں علاقائی اہمیت کے مسائل اور امور پر بات چیت کے علاوہ شہباز شریف جو پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے پہلی مرتبہ کسی ایسے بین الاقوامی فورم میں شرکت کر رہے ہیں جہاں اہم ممالک کے سربراہان بھی شریک ہوں گے ان سے براہ راست رسمی ملاقات خواہ سائیڈ لائن ہی کیوں نہ ہو پاکستان کے نکتہ نگاہ سے خاصی اہمیت کی حامل ہوگی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ایک ایسے موقعہ پر ہو رہا ہے جب پاکستان کو ایک بدترین سیلاب سے آنے والی تباہی کا سامنا ہے اور اس جانی ومالی نقصان سے بین الاقوامی برادری بھی پوری طرح آگاہ ہے اس لئے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اجلاس میں شریک سربراہان اور دیگر شخصیات پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وزیراعظم سے اس موقعہ پر اظہار افسوس بھی کریں گے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعظم لندن بھی جائیں گے جہاں وہ ملک کی داخلی سیاسی صورتحال میں بعض اہم فیصلوں پر میاں نواز شریف سے مشاورت کریں گے اور راہنمائی بھی لیں گے، اس دوران دیگر ملاقاتوں کے علاوہ لندن میں ملکہ برطانیہ کی تعزیتی تقاریب میں بھی ان کی شرکت متوقع ہے تاہم وزیراعظم کے دورہ لندن اور وہاں ہونے والی مصروفیات کی تفصیل سرکاری طور پر سامنے نہیں آسکی ہیں۔ بیرون ملک وزیراعظم شہباز شریف کی آخری اور اہم مصروفیات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور وہاں خطاب ہے جو 19 ستمبر کو نیویارک میں ہو رہا ہے۔
اجلاس میں اپنی اولین شرکت کا وزیراعظم شہباز شریف کو موقعہ ایک ایسی صورتحال میں مل رہا ہے جب 2020 اور 2021 کے اجلاس کووڈ19 کی وجہ سے ورچوئیل میٹنگز میں تبدیل کر دیئے گئے تھے اور 2019 کو ہونے والے اجلاس کے بعد اب دو سال کے وقفے سے ہو نے والے اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہ اور عالمی راہنما ذاتی حیثیت سے شریک ہو رہے ہیں۔
جنرل اسمبلی کے خطاب سے قبل وزیراعظم تعلیمی اصلاحات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہونے والے دو اجلاسوں میں بھی شرکت کریں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت اور خطاب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس موقعہ پر وہاں موجود عالمی راہنماؤں سے سائیڈ لائن ملاقاتوں کیلئے وزیراعظم کی حیثیت سے شہباز شریف کے تعارف پر مبنی ملاقاتیں بھی اہم ہوں گی یہاں بھی لوگوں کی نظریں منتظر رہیں گی کہ پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات امریکی صدر جوبائیڈن سے ہوگی یا نہیں اور اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے سے کسی مصافحہ یا معانقے کی جھلک نظر آئے گی یا نہیں۔
بعض تجزیہ نگار جو پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کی کارکردگی کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہے ہیں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ان کی خدمات کو سراہتے رہے لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی مجموعی کارکردگی کے نقاد اسے غیر متاثرکن قرار دیتے ہیں۔ لیکن پورے استدلال اور وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی حیثیت سے کارکردگی کی مثالیں دے کر۔ چونکہ اسے تنقید برائے تنقید ہرگز نہیں کہا جاسکتا اس نکتہ چینی میں نہ تو سیاسی تعصب ہے اور نہ ہی کسی کی حمایت یا مخالفت اس لئے اس حوالے سے اختلاف رائے کی حد تک تو گنجائش ہے لیکن اسے یکسر مسترد ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال شنگھائی تعاون تنظیم اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس یہ دو اہم مواقعوں ہیں جہاں پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے میاں شہباز شریف اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے ناقدین کو مطمئن کرسکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جنہوں نے اپنے خلاف دہشتگردی کے الزام کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے تیسری مرتبہ بھی پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا گزشتہ سماعت پر عدالت میں تو پیش ضرور ہوئے لیکن تفتیش کے عمل میں وہ ابھی تک حصہ نہیں بنے اس ضمن میں انہیں تین نوٹسز جاری کئے جاچکے ہیں تاہم عدالتی کارروائی کے بعد سابق وزیراعظم کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی ہوگئی۔
عمران خان جن کے بارے میں حالات و واقعات کے شواہد اور ان کے مجموعی طرز عمل سے یہ تاثر پوری طرح موجود ہے کہ وہ ’’اداروں‘‘ پر جارحانہ انداز اور مشتعل کردینے والی تنقید اور ریمارکس سے نہ صرف ان کی توہین اور ان سے وابستہ شخصیات کی تضحیک کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ قومی اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اداروں کے وقار کو مجروح کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں سب سے واضح الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اس کے چیئرمین کے بارے میں ان کے ریمارکس ہیں جو تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ ملکی تاریخ میں انہوں نے پہلی مرتبہ فوج کے سپہ سالار کی تقرری کو بھی نہ صرف متنازعہ بنایا بلکہ اپنے جلسوں میں بھی موضوع بحث بنایا۔
نجانے وہ خود کو کس حوالے سے ’’خطرناک ‘‘قرار دیتے ہیں لیکن امرواقعہ ہے کہ قومی اداروں اور عدالتوں کے بارے میں ان کا یہ طرزعمل واقعی خطرناک ہے۔ اپنی اس ضد کا وہ مطالبات کی شکل میں اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا چیئرمین اور نیا فوجی سپہ سالار ان کی مرضی ان سے پوچھ کر بنایا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومتی حلقوں کا یہ تاثر درست ہو کہ حکومت مستحکم ہے اور مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے لیکن یہ بات یقیناً درست ہے کہ عوام کی حالت مہنگائی سے غیرمستحکم ہی نہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا ’’قریب المرگ‘‘ ہوتی جارہی ہے بالخصوص بجلی کی بلوں، پٹرول کی قیمتوں اور روز مرہ اشیائے ضرورت کا حصول دسترس سے نکل کر ناممکن ہوتا جارہا ہے، لوگوں کی بنیادی ضرورتیں ان کی خواہش بنتی جارہی ہیں باوقار اور خوداری سے زندگی گزارنا بھی ایک امتحان اور آزمائش بن چکا ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ ہے اور المیہ یہ ہے کہ دور دور تک اصلاح احوال اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی دوسری طرف بے بس اور مہنگائی میں پسی عوام حکومتی ریلیف کی منتظر ہے کیا حکومت ان بے بس لوگوں کی مراد پوری کرنے کی پوزیشن میں ہے ؟ حالیہ سیلاب سے جو المناک صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات بھی بلواسطہ اور بلاواسطہ عوام پر ہی پڑیں گے۔ برق گرتی ہے تو ’’بیچارے مسلمانوں‘‘ پر۔
ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے جہاں متاثرہ علاقوں میں تباہی و بربادی کے دلخراش اور ناقابل فراموش مناظر دیکھنے میں آئے ہیں وہیں انسانی ہمدردی کی بھی ایسی مثالیں سامنے آئیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا پھر عالمی سطح پر اور بالخصوص اسلامی اور دوست ممالک نے جس طرح دامے، درمے، سخنے اس مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی اور اظہار یکجہتی کیا اسے بھی یاد رکھا جائے گا۔