ماہ جولائی 2022ء سے پاکستان کے شمال مغربی خطوں میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مگر بارش شدت اختیار کرتی گئی پنجاب کا بڑا حصہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان شدید متاثر ہوئے پھر بارش کا زور ان خطوں کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی شروع ہوا اس طرح مون سون کی بارشوں نے شمالی پاکستان پھر وسطی علاقوں کو خطرناک ترین سیلابی ریلوں کا نشانہ بنایا۔ بتایا جاتا ہے کہ تاحال ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد ان خطرناک بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
پندرہ سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئے۔ ہزاروں زخمی ہوئے، ڈیڑھ سو سے زائد پل ٹوٹ گئے، ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سڑکیں بہہ گئیں، چالیس سے زائد بند میں شگاف ڈالے گئے۔ تقریباً بیس لاکھ ایکڑ زمینوں پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ سینکڑوں گائوں دیہات سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے۔ اس طرح سیلاب کی تباہ کاریوں سے ساڑھے تین کروڑ افراد بھوک پیاس سے نڈھال ہیں، ہزاروں بیمار بچوں اور بالغوں کے لئے دوائیں دستیاب نہیں ہیں۔ کاشتکار مصائب کا شکار ہیں کہ فصلیں تباہ ہونے کے بعد ان کی زمینوں پر پانچ چھ فٹ کھڑا ہے جو آئندہ فصلوں کی بوائی کے لئے نقصان دہ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک تہائی ملک کی آبادی شدید مسائل اور مصائب کا شکار ہے۔
22؍ اگست کو حکومت نے قومی ایمرجنسی نافذ کی تب اقوام متحدہ نے انسانی فلاح کے ادارے سے عالمی اپیل جاری کی دنیا اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرے۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی مسائل اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سالانہ 24کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک کو سالانہ اتنا بڑا نقصان اس کی بساط سے باہر ہے۔ مزید یہ کہ سرکاری گوداموں میں محفوظ گندم اور چاول بھی پانی بھر جانے سے برباد ہو چکے ہیں ایسے میں نہ صرف سیلاب زدہ علاقوں بلکہ پورے ملک میں خوراک کی شدید قلت کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔
دنیا میں موسمی تبدیلیوں کے زیادہ ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک بڑے بڑے صنعتی ادارے اور ماحول میں آلودگی پھیلانے والے ذمہ دار ہیں ایسے میں حکومت کا مؤقف درست ہے کہ بگاڑ بڑے ممالک زیادہ کریں اور غریب ممالک ان کے کرتوتوں کی سزا بھگتیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس غریب ملک کے دس ہزار سے زائد اسکول تباہ ہو چکے ہیں وزارت صحت کے مطابق ہزاروں بچے عورتیں اور مرد پیٹ کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ہزاروں زخمی افراد کو طبی امداد درکار ہے۔ سیلابی علاقوں میں قیامت کا منظر ہے۔ حکومت بار بار ملک کے مخیر حضرات سے بھی اپیلیں کر رہی ہے کہ وہ دل کھول کے سیلاب زدگان کی مدد کریں۔
کچھ خبریں یہ بھی منظر عام پر آئیں کہ سیلاب زدہ علاقوں کے کچھ کونسلرز اور لوگوں نے امدادی سامان کا اپنی اپنی خفیہ جگہوں میں ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح کی روح فرسا خبریں پڑھ کر زیادہ حیرت نہیں ہوتی کیونکہ زیادہ بے حس خود غرض لوگ یہاں پلتے ہیں جو صرف اور صرف اپنی سوچتے ہیں ایسے افراد کے بارے میں ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ انجیلا جولی نے 2005ء کے زلزلہ کے سانحہ کے وقت پاکستان کی مدد کے لئے اسلا م آباد آئی تھی جو اس کو یہاں جو حیرت انگیز تجربات ہوئے جس کا امریکہ جاکر تذکرہ کر چکی ہے کہ اس کو ہر طرف سے دعوتیں ملنے لگیں انجیلاجولی نے کہا میں یہاں دعوتیں کھانے نہیں آئی بلکہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے آئی ہوں۔
مگر اس وقت کے وزیراعظم نے زور دے کر کہاکہ ان سے میری فیملی ملنا چاہتی ہے اس پر انجیلا جولی چند منٹوں کے لئے وزیراعظم ہائوس چلی گئی۔ بقول اس کے اس کو شدید جھٹکا لگا کہ میز پر تیس چالیس قسم کی ڈشیں سجی ہوئی ہیں اور قریب سو افراد کا کھا چنا گیا ہے۔ اس نے کہا ایک طرف ایک ایک لقمہ کو اور ایک ایک گھونٹ پانی کو ترستے لوگوں کا ہجوم ہے اور یہاں وزیراعظم ہائوس محض میرے لئے یہ اہتمام ہے بتایا جاتا ہے کہ وہ فوری معذرت کرکے چلی آئی۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کی سوچ خالص جاگیردارانہ اور قبائلی ہے۔ قبائلی سرداروں کا قبیلے کے لوگوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ وہ خود جوتا ٹوپی نہیں پہن سکتا بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتا۔ لڑکی کی شادی سردار کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ اشرافیہ کے افراد زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ ہیں یا پھر ان کے پاس نمائشی اسناد ہیں۔ یہ دولت صاحب ثروت طبقہ چاہے تو آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کر سکتا ہے مگر افسوس ان کی سریشت میں ایسا نہیں ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے انسانی فلاحی ادارے کی اپیل کے علاوہ دیگر چند اہم شخصیات نے بھی پاکستان کو امداد دینے اور سیلاب زدگان کی فوری مدد کی اپیل کی ہے۔ بعض بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس کا رخیر میں حصہ لینے کے لئے آگے آرہی ہیں۔ کچھ سیاسی شخصیات کے بیانات آئے ہیں کہ اس موقعہ پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو مدد کے لئے آگے آنا چاہئے۔ کچھ پاکستانی افراد اس رائے سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں ان کی دلیل ہے کہ بھارت اگر مدد کرنا بھی چاہے تو اس سے مدد نہ لی جائے۔
بہرحال یہ سیاسی مسئلہ ہے چلتا رہے گا۔ بھارت میں مشرقی پنجاب آسام اور شمالی علاقوں میں سیلاب آیا مگر بھارتی حکومت نے حالات پر اپنے طور پر قابوپا لیا اس طرح چین میں حالیہ گرمی کی شدت سے خاصی تباہی آئی۔ گرڈ اسٹیشن بند ہوگئے، سڑکیں سنسان ہوگئیں، پانی کی کمی نے لاکھوں افراد کو مسائل سے دوچار کیا مگر چین نے اپنے طور سے حالات پر قابو حاصل کیا۔ کینیڈا جیسے ٹھنڈے ملک میں گلوبل وارمنگ نے شدید مسائل پیدا کردیئے۔
پاکستان کے پاس یہ امکانی قوت اور صلاحیت ہے کہ وہ قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکتاہے۔ اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ ملک میں رشوت بدعنوانی اور دو نمبر کا کاروبار عروج پر ہے۔ برطانیہ، امریکہ، متحدہ عرب امارات میں سینکڑوں پاکستانی افراد کے اکائونٹ ہیں تمام بلیک منی ان ملکوں میں ڈپازٹ ہے۔ اس کے علاوہ ہر روز کروڑوں روپیہ کا حوالہ کا دھندا چلتا ڈرگ کا پیسہ بھی اس کا ایک بڑا حصہ ہے۔ بلیک منی حوالہ کا دھندا کرنے والوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری جاپان، ہانگ کانگ، دوبئی، لندن، روم وغیرہ میں کر رکھی ہے۔ اگر یہ افراد تھوڑی سی حب الوطنی مظاہرہ کریں تو بڑی حد تک ملک قدرتی آفات کا مقابلے کرنے میں خود کفیل ہو سکتا ہے اور ہر بار جھولی پھیلانے سے جان چھڑا سکتا ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک کو پاکستان کے بدعنوان لالچی اورخود غرض ٹولوں کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی فلاحی ادارے نے اپنی حالیہ جائزہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پندرہ سو کے قریب افراد ہلاک، تیرہ ہزار سے زائد شدید زخمی، اٹھارہ لاکھ مکان تباہ ہو چکے ہیں، لاکھوں کیوسک فٹ پانی سندھ میں داخل ہو چکا ہے اور بارشیں جاری ہیں مگر بلوچستان کی صورت بہت زیادہ خطرناک ہے ہر طرف پانچ تا سات فٹ کھڑا ہے پورا صوبہ گہرے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ تمام سڑکیں بہہ گئیں ہیں کوئی راستہ نہیں ہے۔ صوبہ باقی ملک سے بالکل کٹ چکا ہے بجلی پانی کی فراہمی بند ہے سوئی گیس کی کئی لائنیں بہہ چکی ہے۔ گیس کی فراہمی بالکل بند ہیں۔
اقوام متحدہ عالمی صحت کے ادارے نے اپیل جاری کی ہے کہ چار کروڑ کو طبی سہولتیں فوری فراہم کی جائیں۔ ایک جائزہ کے مطابق 14لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین سیلاب سے شدید متاثر ہو چکی ہے اور پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ سے بھی بڑے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی فلاحی ادارے اور عالمی ادارہ عالمی خوراک ہر طرح سے مدد کرنے کی پوری کوششیں کر رہے ہیں لیکن بعض اہلکاروں کا کہنا ہے کہ کم بہت زیادہ ہے۔ وسیع تر علاقے متاثر ہیں۔ ایک بوتل پانی دو سو سے چار سو تک میں فروخت ہو رہی ہے مگر اس لوٹ مار کے لئے لوگوں کے پاس پیسہ نہیں کہ پانی خرید کر پئیں۔
بعض وی وی آئی پی اور مخیر حضرات نمائشی کام کرکے فوٹو سیشن کروا رہے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کسی بھی تقریب کے لئے اعلیٰ حکام سیاستدان اور دیگر شخصیات فوٹوگرافر کو ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ خود نمائی اور احساس کمتری کی نشانیاں ہیں۔ اشرافیہ کے زیادہ تر افراد اپنے دائرہ میں فرسودہ مصروفیات بھی وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔
انسانی خدمت انسانی فلاح، عوامی مسائل محض جلسوں میں نعروں تک محدود ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں خاص طور پر اسکولوں کے نصاب میں بھی تربیت کا کوئی گوشہ نہیں ہے۔ بچے رٹ کر امتحان دیتے ہیں پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
امریکہ یورپ میں اسکولوں میں بچوں کو اخلاقیات،صحت، کھیلوں اور ضروری معلومات کے سبق بڑھائے جائیں اور تربیت دی جاتی ہے۔ معذرت کے ساتھ ہمارے لگ بھگ تمام شعبے انحطاط کا شکار ہیں مگر تعلیم کا شعبہ زیادہ مفلوک الحال ہے۔ جعلی اسناد پر اساتذہ کا تقرر، بچوں کو رٹنے کی عادت، نقل کا رجحان، کتاب سے عدم دلچسپی ان حالات میں ہماری زندگیاں گزر رہی ہیں۔ ایسے میں قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہم صرف دعائوں پر انحصار کرتے ہیں عملاً کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
سال 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد حکومت اور عوام دونوںکی ذمہ دار تھی کہ ایسی قدرتی آفات کا تدارک کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی قدم اٹھائے۔
واضح رہے کہ ایسا نہ ہو مگر قدرتی آفات کو کون ٹال سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلیاں ایک حقیقت ہے اور دنیا بھرکے سائنس دان اور ماہرین ماحولیات ستر کی دہائی سے مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ دنیا میں آلودگی میں مسلسل اضافہ سے قدرتی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے اور اس کے تدارک کے لئے فوری اقدام کئے جائیں مگر اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔
ان دنوں یورپ امریکہ اور باقی ملکوں میں آلودگی پرقابو پانے کے لئے قدرتی کوئلہ کے استعمال اور اس سے بجلی بنانے میں کم سے کم استعمال کرنے کی مہم زور پکڑ رہی ہے اور اس کے بدل میں ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے پر زوردیا جا رہا ہے۔
مگر یوکرین میں واقع ایٹمی پلانٹ کے بارے میں یورپ امریکہ کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ وہاں روسی فوجی حملے کر رہے ہیں پلانٹ کے اطراف گولیاں چل رہی ہیں اور دھماکے ہو رہے ہیں۔ اس خطرناک اور تشویشناک صورتحال کودیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے بیش تر ماہرین اور رضاکاروں نے یوکرین کے ایٹمی بجلی گھر کے ساتھ اپنا کیمپ بنا لیا ہے۔ روسی سپاہیوں نے ایٹمی پلانٹ پر دوبار حملے کئے ہیں جس سے دنیا میں اضطراب اور تشویش پھیل گئی ہے کہ اگر پلانٹ کو نقصان پہنچا تو اس سے تابکاری شعائیں خارج ہوں گی جو دنیا کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گی خصوصاً یورپ اور اطراف کے خطوں کی سلامتی کے لئے اس طرح انسانی ضد ، ہٹ دھرمی اور طاقت کے مظاہرے پوری انسانیت کی بقاء اور سلامتی کے لئے انتہائی تشویشناک ہوسکتے ہیں پاکستان میں حالیہ خوفناک بارشوں اور سیلاب کے حوالے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے بیان میں درست کہا کہ سیلاب یا دیگرقدرتی آفات انسانی کوتاہیوں اور انسانی عمل کا نتیجہ ہے۔
زمانہ قدیم میں مصر کے معروف دریائے نیل میں ہر سال بڑے سیلاب آتے تھے جس سے مصریوں کو اطراف کے ملکوں بڑے مصائب جھیلنے پڑتے تھے مگر سابق سوویت یونین کے دور میں مصر کے معروف قومی رہنما صدرجمال ناصر کے روس سے اچھے تعلقات تھے جبکہ اسرائیل، برطانیہ اور فرانس سے نہر سوئز کے مسئلے پر دو جنگیں ہوچکی تھیں۔ روس نے مصر کی دوستی میں دنیا کا مٹی کا سب سے بڑا ڈیم بناکر دیا تب سے دریائے نیل کا سیلابی ریلا اسوان ڈیم میں جمع ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں بھی کچھ عرصہ قبل کالا باغ ڈیم کی تعمیر کرنے کے حوالے بہت شورمچا ہوا تھا۔ خیبر پختونخواہ اس ڈیم کی تعمیر کی جگہ پر شدید تحفظات رکھتا تھا اس لئے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ کاغذوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ کیا اچھا ہوتا اگر ہمارے منصوبہ ساز دوچار قدرے چھوٹے ڈیم تعمیر کرلیتے تو عوام کو سیلاب کے عذاب اورمصائب سے چھٹکارا مل جاتا۔
حالیہ خوفناک تباہ کن سیلاب کے بعد شاید منصوبہ سازوں کو ہوش آجائے۔
برسبیل تذکرہ ایک خبر یا افواہ یہ بھی اُڑی ہوئی ہے کہ شمال مشرقی پنجاب کا علاقہ پانچ دریائوں سمیت سیلابی ریلے کے حالیہ جھٹکوں اور بہائو سے قدرے محفوظ رہا جبکہ باقی پنجاب، خیبرپختونخواہ اور سندھ شمالی علاقے اور مکمل بلوچستان سیلاب میں ڈوب گئے۔ ماہرین حقیقت سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے بعدان کہنا ہے کہ سیلابی خطوں میں زندگی کو دوبارہ معمولات میں لانے کے لئے نئے سرے سے تمام انفرا اسٹرکچر تعمیرکرنا ہوگا۔ لاکھوں مکانات تعمیر، ہزاروں اسکول، سینکڑوں ہسپتال اور طبی مراکز تعمیر کرنے ہوں گے۔
ان تمام مسائل سے نمٹنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ آئے گا، وقت درکار ہوگا تب تک یہ بدحال لوگ کہاں جائیں گے۔ قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔گزشتہ ہفتہ جنوبی کوریا میں شدید طوفانی بارشوں کے بعد خوفناک سیلاب نے گھیر لیا۔ سینکڑوں کاریں، دیگر سامان سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ چار دن کے لئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیں۔ اس طرح جنوبی امریکہ کے ملکوں ایکویڈور اور چلّی میں بھی طوفانی بارشوں اورسیلاب آئے ہیں۔
جغرافیائی طور پر زمین کے شمالی حصہ میں جب موسم سرما ہوتا رہے تو زمین کے جنوبی حصہ میں موسم گرم ہوتا ہے۔کیلی فورنیا اور آسٹریلیا کے جنوبی خطوں میں جہاں گھنے جنگلات واقع ہیں جنگل میں آگ بھڑک اٹھی جبکہ کیلی فورنیا میں دوبار جنگلات میں آگ لگ چکی اور اربوں ڈالر مالیت کا نقصان ہوگیا۔
امریکی سائنس دان مارک فوسٹر کاکہنا ہے کہ اب انسانوں کو موسمی تباہیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے تیارہونا ہوگا۔ موسمی تبدیلیاں اور درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہماری زندگیوں کاحصہ بنتے جا رہے ہیں۔
ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلاب کی تباہ کاریوں کی بدولت سیاست، معیشت، معاشرت اور سماجی ڈھانچوں پر مہیب اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو چین اور اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی بہت سی توقعات ہیں کہ ادھر سے امداد ضرور مل جائے گی۔ تاہم دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ دوسروں کی طرف دیکھنے اور آس لگانے سے بہتر ہے کہ ہم خود پر بھروسہ کرکے اپنے بھائیوں کی مدد شروع کردیں۔
ہمارا قومی فرض بھی ہے جو لوگ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کو نظرانداز کررہے ہیں وہ دراصل حقائق سے آنکھیں چرارہے ہیں اگر ہم اپنا لائف اسٹائل تبدیل کرلیں کاروں کی تعداد کم سے کم کردیں۔ بجلی، گیس کے استعمال میں کمی کردیں قدرتی کوئلہ کا استعمال لگ بھگ ختم کردیں۔ تیل کے استعمال میں بھی اعتدال لے آئیں تو آلودگی کم ہو سکتی ہے۔ اس سے زمین اور ہوائوں کی حدت میں کمی آسکتی ہے اور درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے موسمی تبدیلیوں کی ہولناکیاں بھی بڑی حد تک کم ہو جائیں گی، مگر یہ ممکن نہیں لگتا انسان اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پاسکتا بلکہ مزید خواہشات میں اضافہ ہو رہاہے۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرانسان درجہ حرارت میں ڈیڑھ دو ڈگری کم کر لے تب بھی حالات سدھر سکتے ہیں۔ مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ سال 2050ء تک زمین کی شکل مزید تبدیل ہو جائے، موسمی حالات انسانی زندگیوں پر حاوی آجائیں۔ وبائی امراض میں اضافہ ہوگا۔ پینے کے پانی، خوراک میں مزید کمی در آئے گی اور آکسیجن سلنڈر ساتھ رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگر آلودگی اورگلوبل حرارت میں اضافہ کی رفتارمقدار اسی طرح جاری رہے۔
گزشتہ سال عالمی تھنک ٹیک ’’جرمن واچ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان دنیا میں موسمی حالات کے باعث سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک بن سکتا ہے۔ دوسری جانب نومبر 2021 میں اسکاٹ لینڈ کے شہر، گلاسکو میں ماحولیات سے متعلق دو روزہ عالمی کانفرنس میں 120 ممالک نے جنگلات کی کٹائی روکنے اور دنیا کو کاربن کی ہلاکت خیزی سے محفوظ کرنے کی خاطر سنجیدہ کوششوں کا وعد کیا تھا۔
’سی او بی 26‘ کے نام سے منعقدہ تاریخی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سربراہ، انتونیو گوتریس نے کہا تھا کہ ’’ہم کرئہ ارض کو نقصان پر نقصان پہنچاکر خود اپنی قبریں کھود رہے ہیں‘‘۔ اس کانفرنس کے انعقاد کو سال بھی نہیں گزرا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی آگ، سیلابوں اور گلیشئر پگھلنے سمت بے وقت اور معمول سے زائد بارشوں کی صورت میں پے درپے المیے رونما ہوئے۔
ماہرین ماحولیات و موسمیات کے مطابق قدرتی آفات میں سیلاب سب سے بڑے ہیں۔ موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق، مون سون کی شدید بارشوں اور گلوبل وارمنگ کے باعث پگھلتے گلیشئرز، پاکستان میں بڑے سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں، جب کہ گلگت، بلتستان اور خیبر پختون میں گلیشئر پگھلنے سے بننے والی جھیلیں پھٹنے کے سبب سیلاب خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ایک ملک یا خطے تک محدود سمجھنے کی بجائے پوری دنیا کا مسئلہ سمجھا جائے اور پورے کرئہ ارض میں احتیاطی اقدامات کیے جائیں، اسی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار خطوں کو آفات سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کا شکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں موسمی تبدیلیاں اور آلودگی بڑھنے کی وجہ سے ایسی گیسز پیدا ہورہی ہیں جس نے دنیا بھر میں ماحولیات کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ماحول کی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہمارا خطہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں زیادہ اور شدید ہوئیں۔ گرچہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ایک بین الاقوامی عمل ہے لیکن کیا ہم نے اپنے ملک اور عوام کو اس تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات کیے؟
یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ حالاں کہ عالمی ماحولیاتی اداروں نے تقریباً پندرہ سال قبل خطرے کی گھنٹی بجادی تھی اور یہ واضح کردیا تھا کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمی اثرات کی جانب توجہ نہ دی گئی تو 2020 سے 25 کے درمیان پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شام ہوگا جہاں شدید موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں آئیں گی۔ لیکن ہم نے اس گھنٹی کو سنا ہی نہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس پاکستان کے دورے پر آئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ انہوں نے نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈی نیشن سینٹر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات کے دور میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کوئی حصہ نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان جس قدر متاثر ہوا ہے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں، عالمی برادری ان کی معترف ہے۔
انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب جیسی قدرتی آفت کا سامنا ہے، یہاں 30ارب ڈالر کانقصان ہوا ہے، اس صورت حال سے نکلنے کے لیے بڑی امداد کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ آج اس صورت حال کا پاکستان کو سامنا ہے، کل کوئی اور ملک بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوسکتا ہے۔
یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ اس مشکل گھڑی میں عالمی برادری پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے آگے بڑھی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دورہ پاکستان کے لیے انتہائی موثر ثابت ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو حالیہ سیلاب نے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ معیشت پہلے ہی بحران کاشکار تھی، سیلاب کے بعد مزید تباہ ہوگئی۔ امید ہے کہ عالمی شراکت داروں کی مدد سیلاب متاثرین کی بحالی میں اہم ہوگی۔ لیکن ماحولیات کا کیا کیا جائے، جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ خراب ہورہی ہے۔ اس وقت امریکا، دنیا بھر کی مجموعی ماحولیاتی آلودگی کے 25فی صد کا ذمہ دار ہے۔ تیل، گیس اور کوئلے کا سب سے بڑا صارف بھی ہے اور دیگر ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے۔
دنیا کے سب سے زیادہ صنعتی کارخانے، بھاری مشین اور تیل صاف کرنے والے کیمیائی مادوں کی فیکٹریاں بھی امریکا میں ہیں، مگر وہ ماحولیاتی خطرات کے خلاف عالمی مہم جوئی کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ آج اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انہی الفاظ کا اعادہ کررہے ہیں کہ روایتی ایندھن کے استعمال کرنے والے بڑے ملکوں کا کیا دھرا پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں۔ سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس نے عالمی برادری سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع پر سرمایہ کاری کی جائے اور قدرت سے جنگ ختم کی جائے۔ انہوں نے عالی برادری سے اپیل کی ہے کہ دنیا آگے آئے اور پاکستان کی مدد کرے۔